میرے لیے وہ شخص مصیبت بھی بہت ہے
سچ یہ ہے مجھے اس کی عادت بھی بہت ہے
روحی کنجاہی
نام امر الٰہی اور تخلص روحیؔ ہے۔ 04 اگست 1936ء کو کنجاہ، ضلع گجرات(پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ابھی روحی آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ناسازگار حالت کے باوجود روحی کنجاہی نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم ملازمت بھی کرتے رہے۔ میٹرک کے بعد دس برس کوہ نور ٹیکسٹائل ملز، فیصل آباد میں گزارے۔ بعدازاں لاہور میں زرعی ترقیاتی وسپلائز کارپوریشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ 07 فروری 2022ء کو وفات پا گئے-ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’سمتیں‘‘ (مجموعہ کلام)، ’’بے مثال افسانہ‘‘(افسانوی مجموعہ)، ’’منتخب شاہ کار مزاحیہ شاعری‘‘(تالیف)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:319
اشعار
۔۔۔۔۔
معجزہ کوئی دکھاؤں بھی تو کیا
چاند میں شہر بساؤں بھی تو کیا
کس لیے پھرتا ہوں تنہا نہ کسی نے پوچھا
کیوں کہیں جی نہیں لگتا نہ کسی نے پوچھا
صورتِ نغمۂ جاں اے روحیؔ
میں ترے دل میں اترنا چاہوں
منصفِ وقت سے بیگانہ گزرنا ہوگا
فیصلہ اپنا ہمیں آپ ہی کرنا ہوگا
میرے لیے وہ شخص مصیبت بھی بہت ہے
سچ یہ بھی ہے اس کی مجھے عادت بھی بہت ہے
تو مل بھی جائے تو پھر بھی تجھے تلاش کروں
ہر ایک دور میں تخلیقِ ارتعاش کروں
یوں تو ہوں ایک لفظ ہی میں بھی لغات کا
مفہوم کے لحاظ سے سب سے جدا ہوں میں
یہ تیری بزم ہے یاں تیرا سکہ چلتا ہے
کوئی بھی بات مری معتبر نہیں نہ سہی
اب تو یوں لب پہ مرے حرفِ صداقت آئے
ناگہاں شہر پہ جیسے کوئی آفت آئے
نہ چشم اشارے سے واقف نہ لب کا حرف سے ربط
کچھ ایسے سلسلے بھی قیل و قال کے دیکھے
یہ سلسلۂ شام و سحر یوں ہی نہیں ہے
ہر قافلہ سرگرم سفر یوں ہی نہیں ہے