لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ایک اہم کیس کی سماعت کے دوران میاں اسلم اقبال سمیت تین ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا ہے۔ یہ کیس گلبرگ کینٹر جلانے اور کار سرکار میں مداخلت کے واقعات سے متعلق ہے، جس میں ملزمان پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔انسداد دہشت گردی عدالت نے پولیس کی درخواست پر سماعت کی، جس میں پولیس نے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔ پولیس نے بتایا کہ ملزمان میاں اسلم اقبال، علی ملک، اور شہزاد خرم کی گرفتاری کے لیے متعدد چھاپے مارے گئے، لیکن وہ تاحال گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ تینوں ملزمان نے خود کو روپوش کر رکھا ہے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کو قانون کے مطابق اشتہاری قرار دیا جائے تاکہ ان کے خلاف مزید قانونی کارروائی کی جا سکے۔ پولیس کے مطابق، ملزمان نے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ عوامی املاک کو نقصان پہنچانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ یہ واقعات دہشت گردی کی دفعات کے تحت آتے ہیں اور اس کیس میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔
عدالت نے پولیس کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے میاں اسلم اقبال، علی ملک، اور شہزاد خرم کو اشتہاری قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے مزید اقدامات کرے اور انہیں جلد از جلد عدالت میں پیش کرے۔یہ کیس تھانہ گلبرگ میں درج کیا گیا تھا جس میں ملزمان پر دہشت گردی سمیت دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ ان واقعات نے نہ صرف مقامی کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیلایا بلکہ عوامی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق، ملزمان کا روپوش ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے جرائم کی سنگینی سے آگاہ ہیں اور قانونی کارروائی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد ملزمان کے لیے گرفتاری کا امکان مزید بڑھ گیا ہے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے پولیس پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔
ملزمان کی گرفتاری کے بعد عدالت میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت ہو گی جس میں ان پر عائد الزامات کا جائزہ لیا جائے گا اور عدالت فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ مجرم ہیں یا نہیں۔ اگر ملزمان گرفتار نہیں ہوتے تو ان کے خلاف مزید سخت قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے، جس میں ان کی جائیداد کی ضبطی اور دیگر پابندیاں شامل ہو سکتی ہیں۔یہ واقعہ پاکستانی معاشرے میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے اور اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
Shares: