ملی ادبی پنچائیت کے بانی چیئرمین محترم ریاض احمد احسان ان چمکتے ہوئے ستاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے لاہور کی ادبی فضا کو نئی جہتیں دیں، اور فکر و فن کے متلاشیوں کے لیے ایک متحرک، فعال اور باوقار پلیٹ فارم فراہم کیا،ریاض احمد احسان صرف ایک شاعر یا ادیب نہیں، بلکہ ایک تحریکی روح ہیں، اُن کی شخصیت میں ایک ایسا جادو ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے، بکھرے ذہنوں کو سمیٹتا ہے اور ادب کو صرف کتابوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ سماج، ملت اور قوم کے حقیقی مسائل سے جوڑ کر پیش کرتا ہے،وہ ملی جذبے سے سرشار، فکری بیداری کے سفیر اور ادبی وحدت کے پیامبر ہیں۔ اُن کا اندازِ گفتگو، اندازِ میزبانی، اور ہر تقریب میں ان کی متحرک شرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ادب کو ایک مشن سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ اُن کے ہاتھوں سجنے والی محافل میں نہ کوئی سیاسی تعصب ہوتا ہے، نہ ذاتی مفادات کی بو، بلکہ صرف اور صرف فکر، فن اور وطن کی خوشبو ہوتی ہے،
محترم ریاض احمد احسان کی زیرِ قیادت قائم ہونے والی تنظیم ملی ادبی پنچائیت ایک ایسا ادبی قافلہ ہے جو صرف مشاعرے نہیں کراتا، بلکہ فکری مکالمے، قومی شعور، اور اجتماعی دانش کے فروغ کا ذریعہ بن چکا ہے، اس پلیٹ فارم کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر مکتبِ فکر، ہر نسل اور ہر طبقے کے اہلِ قلم کو خوش آمدید کہا جاتا ہے،ملی ادبی پنچائیت نے ادب کو محض شاعری کے رنگین لفظوں سے نکال کر اسے وطن، امن، حب الوطنی اور فکری آزادی کے دائرے میں رکھا ہے، یہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں شاعر صرف قافیہ نہیں دیکھتا بلکہ قوم کے کرب کو محسوس کرتا ہے، اور دانشور صرف تنقید نہیں کرتا بلکہ اصلاح کا راستہ دکھاتا ہے،یہ ادارہ نہ صرف ثقافتی ورثے کی حفاظت کر رہا ہے، بلکہ نئی نسل کو ادبی شعور سے ہمکنار کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ہر تقریب میں نظریاتی گہرائی، فکری وسعت اور قومی ذمہ داری کا عنصر نمایاں ہوتا ہے، جو اسے دیگر تنظیمات سے ممتاز بناتا ہے،ریاض احمد احسان ایک ایسے فکری اور روحانی اثاثے کا نام ہیں جس پر اہلِ لاہور ہی نہیں، پوری ادبی دنیا کو فخر ہونا چاہیے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، ادب کے چراغ جلاتے ہیں، امن کے پیغام بانٹتے ہیں، اور اہلِ قلم کو وہ زبان دیتے ہیں جو صرف کتابی نہیں، عملی بھی ہو۔
28 مئی 1998 کا دن پاکستانی قوم کے لیے ایک ناقابلِ فراموش لمحہ ہے، جب ایٹمی دھماکوں کے ذریعے پاکستان نے دنیا کو باور کروا دیا کہ یہ ملک دفاعی لحاظ سے ناقابلِ تسخیر ہو چکا ہے۔ اس تاریخی دن کی یاد میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن (اپووا) ہر سال تقریبات منعقد کرتی ہے، اور امسال بھی لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں یومِ تکبیر کی مناسبت سے کیک کاٹنے کی پُروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس یادگار تقریب میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے بھرپور شرکت کی۔ ملی ادبی پنچائیت کے بانی چیئرمین اور لاہور کی علمی ادبی فضا کے روحِ رواں، محترم ریاض احمد احسان بھی اس تقریب کی رونق بنے۔ اُن کی موجودگی نے تقریب کو نہ صرف وقار بخشا بلکہ حالاتِ حاضرہ پر اُن سے ہونے والی گفتگو نے تقریب کو فکری گہرائی بھی عطا کی۔
ریاض احمد احسان نے 29 مئی کو کاسموم پولیٹن کلب، لارنس گارڈن لاہور میں منعقد ہونے والی "امن و جنگ” مشاعرہ و مکالمہ کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی، جو ملی ادبی پنچائیت کی جانب سے منعقد کی جا رہی تھی۔ اگرچہ طے شدہ وقت پر پہنچنا ممکن نہ ہو سکا، تاہم تقریب میں دیر سے پہنچنے کے باوجود شرکت کی،تقریب میں ادیبوں، شاعروں اور قومی فکر رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مشاعرہ کے ساتھ ساتھ فکری مکالمے نے محفل کو مزید معنویت عطا کی۔ جہاں ہر فرد امن کی خواہش رکھتا تھا، وہیں اگر جنگ یا جارحیت مسلط کی جائے تو اس کے خلاف جواب نہ دینا بھی کمزوری گردانا گیا۔ خواجہ جمشید امام کے بقول، "اس پر خاموشی نامردانگی ہے”۔
اس تقریب کی صدارت ملی ادبی پنچائیت سپریم کونسل کے چیئرمین، جناب رضوان کاہلوں نے کی۔ اس موقع پر معروف شاعر، ادیب اور دانشور میجر (ر) شہزاد نیئر کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔ اُنہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں افواجِ پاکستان کی حکمت عملی، کارگل جنگ کے چشم دید تجربات اور آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق دلچسپ اور معلوماتی گفتگو کی۔میجر (ر) شہزاد نیئر نے نہ صرف روایتی جنگ بلکہ جدید دور کی سائبر وار کی پیچیدگیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ اُن کا خطاب جذبۂ حب الوطنی سے لبریز تھا، جس نے حاضرین کے دلوں کو گرما دیا۔ اس ادبی اور فکری محفل میں گائیکی کے رنگ بھی شامل کیے گئے۔ معروف گائیک سکندر خاقان، مرزا جاوید اقبال بیگ، شہباز حیدر اور میڈیم ہما عمران نے ملی نغموں سے سامعین کے جذبوں کو بلند کیا۔ اپووا کے بانی چیئرمین ایم ایم علی نے اپنی خوبصورت شاعری سے محفل کو نورانی کر دیا۔
محترم ریاض احمد احسان نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے ہوئے تقریب کو عمدہ طریقے سے ترتیب دیا، اور اپنی موجودگی سے اسے جِلا بخشی۔ اُن کی متحرک شخصیت نے اہلِ لاہور کی علمی و ادبی پہچان کو مزید نمایاں کر دیا،تقریب کے اختتام پر پرتکلف عشائیہ اور چائے کا اہتمام تھا، جہاں اہلِ ذوق افراد نے باہم گفتگو کرتے ہوئے محفل کی خوبصورتی کو سراہا۔یومِ تکبیر کے موقع پر ہونے والی یہ تقریبات نہ صرف وطن سے محبت کے جذبے کو تازہ کرتی ہیں بلکہ اہلِ قلم کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ادبی ہم آہنگی اور فکری تبادلے کو فروغ دیتی ہیں۔ ریاض احمد احسان، رضوان کاہلوں، میجر شہزاد نیئر اور دیگر تمام احباب اس ادبی و قومی خدمت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔