وطن عزیز میں آجکل ایک مخصوص طبقہ بار بار یہ دعوی کرتا نظر آتا ہے کہ ملک میں منی مارشل لاء نافذ ہے اگر اس دعوے کو زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ بیانیہ ناصرف کمزور بلکہ گمراہ کن محسوس ہوتا ہے۔ مارشل لاء کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، آئین کی معطلی، اسمبلیوں کی تحلیل، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور براہ راست فوجی حکمرانی۔ سوال یہ ہے کیا آج پاکستان میں ان میں سے کوئی ایک عنصر بھی موجود ہے؟ جواب صاف اور واضح ہے (نہیں)، آج پاکستان میں آئین موجود ہے، پارلیمنٹ فعال ہے اور سب سے بڑھ کر ملک میں منتخب جمہوری حکومتیں برسراقتدار ہیں۔ مرکز میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کام کر رہی ہے، مسلم لیگ ن بڑی پارلیمانی جماعت ہے، پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت موجود ہے، کے پی کے میں پی ٹی آئی کی جمہوری حکومت ہے، بلوچستان اور پنجاب میں بھی آئینی سیٹ اپ کے تحت حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ اگر یہ سب جمہوریت نہیں تو پھر جمہوریت کسے کہتے ہیں؟

منی مارشل لاء کا شور دراصل سیاسی ناکامیوں اور عوامی حمایت میں کمی پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔ جب دلیل کمزور پڑ جائے تو اداروں پر الزام تراشی آسان راستہ بن جاتی ہے یہ طرزِ عمل نہ صرف سیاسی بلوغت کے منافی ہے بلکہ قومی مفاد کے بھی خلاف ہے۔ ریاستی ادارے خصوصا قومی سلامتی کے ادارے کسی ایک جماعت یا فرد کے نہیں بلکہ پوری قوم کے ہوتے ہیں۔ ان پر بے بنیاد حملے دراصل ریاست کی جڑوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر اختلاف اور تخریب میں فرق ہونا چاہیے اگر واقعی کوئی غیر آئینی اقدام ہو تو اسکی نشاندہی آئینی فورمز، پارلیمنٹ اور عدالتوں کے ذریعے کی جائے نہ کہ سوشل میڈیا کے نعروں اور اشتعال انگیز بیانات سے۔

منی مارشل لاء کا بیانیہ پھیلانا دراصل عوام کو کنفیوژن میں ڈالنے اور ریاستی اداروں اور جمہوری نظام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام، معاشی بہتری اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے بیانیوں کی جو مایوسی اور بداعتمادی کو فروغ دیں۔ جمہوریت کو کمزور کرنے کے بجائے اسے مضبوط کرنا ہی تمام سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ آخرکار نقصان کسی ایک جماعت کا نہیں پورے پاکستان کا ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ منی مارشل لاء نافذ ہے کا شور جو سنائی دے رہا ہے یہ دعوی سننے میں جتنا سنسنی خیز لگتا ہے اتنا ہی بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف آئینی حقائق کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی ایک خطرناک کوشش بھی ہے۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں بلکہ کچھ سیاسی عناصر کی اپنی ناکامیاں ہیں جنہیں چھپانے کے لیے ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب سیاست خدمت کے بجائے الزام تراشی بن جائے تو ایسے ہی بے سروپا نعرے جنم لیتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو بھڑکانا کسی بھی طور سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ قومی مفاد کے خلاف اقدام ہے۔ یہ طرز سیاست ایک خطرناک بلکہ ناقابل قبول بھی ہے۔ اداروں کو کمزور کرنے کا نقصان کسی حکومت یا جماعت کو نہیں بلکہ پوری ریاست کو ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے اسی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ جمہوریت کو کمزور کرنے والے دانستہ یا نادانستہ پاکستان کے مفادات سے کھیل رہے ہیں۔ قوم کو ایسے بیانیوں سے ہوشیار رہنا ہو گا اور سیاسی قوتوں کو یاد رکھنا ہو گا کہ سیاست اقتدار کے لیے نہیں ریاست کے استحکام کے لیے ہوتی ہے۔

Shares: