خدائے سخن ،ملک الشعراء ،سرتاج الشعراء اور امام المتغزلین میر تقی میر

خدائے سخن ،ملک الشعراء ،سرتاج الشعراء اور امام المتغزلین میر تقی میر

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
مرزا اسد اللہ خاں غالب

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
شیخ ابراہیم ذوق

شعر میرے بھی ہیں پُر درد و لیکن حسرت
میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں

حسرت موہانی

سرتاجِ شعرائے اردو خداۓ سخن”میر تقی میر” یہ ایک ایسا نام ہے جس سے زبان و ادب سےدلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو ناواقف و نا آشنا ہو میر تقی نام اور تخلص میر28 مئی 1723 میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی تھا۔ میردس سال کے ہوئے ان کا والد کا انتقال ہو گیا۔ سوتیلے بھائیوں نے میر کو والد کی جائیداد میں کچھ نہ دیا۔ مجبورا میر کوآگرہ چھوڑنا پڑا اور تلاش معاش کے لئے دہلی پہنچے ۔ اور اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کے یہاں قیام کیا لیکن بدقسمتی سے میر یہاں بھی سکون سے نہ رہ سکے کیونکہ سوتیلے بھائیوں کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی گھر سے نکال دیا۔

اس کے بعد میر پر جنون کی حالت طاری ہوئی کچھ مدت کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو تلاش معاش کے سلسلے میں بھٹکتے پھرے کبھی متھرا گئے کبھی اجمیر ۔ جب دہلی برباد ہوگئی تو میرلکھنو پہنچے۔ لکھنو میں انکی بڑی عزت افزائی ہوئی کیونکہ ان کے لکھنو پہنچنے سے پہلے انکی شاعری کا چرچہ وہاں پہنچ چکا تھا۔ نواب آصف الدولہ نے میر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد میر نے لکھنو میں ہی باقی زندگی بسر کی۔

میر اپنے دور کے احساس زوال اور انسانی الم کے مظہر ہیں۔ ان کی شاعری اس تما م شکست و ریخت کے خلاف ایک غیر منظم احتجاج ہے۔ میر کا تصور، زندگی حزنیہ تھا لیکن مایوس کن نہیں صرف اس میں غم و الم کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ مگر یہ غم و الم ہمیں زندگی سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے۔

🌿چند مشہور مثنویاں🌿

میر صاحب کی مقبولیت ان کی غزلوں سے ہوئی لیکن انہوں نے چند مثنویاں بھی تحریر کی جو حسب ذیل ہیں:

1)مثنوی اخگر نامہ (2) شعلۂ عشق (3) جوش عشق (4) دریائے عشق (5) اعجازِ عشق (6) خواب و خیال (7) معاملاتِ عشق وغیرہ۔ ان کے علاوہ شعرائے اردو کا ایک تذکرہ ” نکات الشعراء ” 1165ھ مطابق 1752ء میں تحریر کی جسے اردو زبان کا پہلا تذکرہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔

وفات
یہ حرماں نصیب شہنشاہ غزل کا انتقال ۸۷سال کی عمر میں ٢٢ ستمبر ١٨١٠ء میں لکھنو میں ہی ہوا اور وہی دفن کئے گئے۔

🌿چند منتخب اشعار🌿

میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاکِ ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا
۞۔۔۞۔۔۞
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کہئے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سرِ الہیٰ کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
۞۔۔۞۔۔۞
کچھ زرد زرد چہرہ کچھ لاغری بدن کی
کیا عشق میں ہوا ہے اے میرؔ حال تیرا
۞۔۔۞۔۔۞
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
۞۔۔۞۔۔۞
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
۞۔۔۞۔۔۞
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
۞۔۔۞۔۔۞
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
۞۔۔۞۔۔۞
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
۞۔۔۞۔۔۞
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
۞۔۔۞۔۔۞
عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
۞۔۔۞۔۔۞
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
۞۔۔۞۔۔۞
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
۞۔۔۞۔۔۞
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
۞۔۔۞۔۔۞
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
۞۔۔۞۔۔۞
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
۞۔۔۞۔۔۞
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
۞۔۔۞۔۔۞
میرؔ ہم مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے
اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو
۞۔۔۞۔۔۞
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
۞۔۔۞۔۔۞
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا ہو دیا سومنات کا
۞۔۔۞۔۔۞
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
۞۔۔۞۔۔۞
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میرؔ زبس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
۞۔۔۞۔۔۞
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
۞۔۔۞۔۔۞

وکیپیڈیا سے ماخوذ

Comments are closed.