جنگل میں ایک بندر چیخا "اُووہ اُووہ ہا اُووہ۔۔۔۔ ”
دیگر سب بندر بھی شروع "اُووہ اُووہ ہا اُووہ۔۔۔۔ ”
بہت شور مچا، لیکن دو چار منٹ میں سب خاموش ہو گئے۔
پھر کسی گدھے نے پکارا۔۔۔ "ڈھچوں ڈھچوں ۔۔۔ پاوا۔۔۔۔ لاوا۔۔۔۔”
دیگر لاکھوں گدھے بھی شروع ” ڈھچوں ڈھچوں پاوا۔۔۔۔۔ لاوا۔۔۔۔ پاوا۔۔۔ لاوا۔۔۔۔”
اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ ہونے کو آ گئے ہیں، یہ سب گدھے ابھی تک ڈھچوں ڈھچوں کر رہے ہیں۔
عمومی جانور اپنی حیوانی جبلت سے مجبور ہوتے ہیں، ان کو شعور نہیں ہوتا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کو چھوڑ کر کچھ مفید اور تعمیری کام کر لیں۔ اس کے باوجود وہ بھی کچھ دیر چوں چوں کر کے، غرا کر ، بھونک بھونک کر آخر چپ ہو جاتے ہیں۔
لیکن ان حیوانوں کا کیا کیا جائے جن کے ہاتھوں میں کی بورڈز آ گئے ہیں اور ان کی ڈھچوں ڈھچوں بند نہیں ہو رہی۔ پھر کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ فلاں فلاں میراثی، بھانڈ اور چوڑے چمار یا فلاں فاحشہ کو فلاں ندا یاسر نامی میڈیا طوائف نے اپنے پروگرام میں کیوں بلا لیا۔ تو یہی "پاوا لاوا” بیضہ نامطلوب اچانک ہاں ہاں کرتے ہوئے "اخلاقیات بریگیڈ” کے پیادے بن جاتے ہیں۔
اللہ کی مار ہو گھٹیا اندھے بہرے حکمرانوں پر، فحش میڈیا پر، اور ان انتہائی گھٹیا اور بداخلاق پنجابی تھیٹر والوں پر، جنہوں نے کروڑوں لوگوں کو بھانڈ اور میراثی بنانے اور ذومعنی اور فحش باتیں سکھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ان کو میراثیت کی ایسی لت لگی ہے کہ ان کا حال اس میراثی سے بھی بدتر ہو گیا ہے جو اپنے باپ کی فوتگی پر بھی پولی پولی ڈھولکی بجا کر اپنی لت پوری کرنے کے چکر میں تھا۔