میرپور ماتھیلو (باغی ٹی وی، نامہ نگار: مشتاق علی لغاری):جروار تھانے پر بالادستی کے دعوؤں نے علاقے کی صورتحال کو تشویشناک حد تک کشیدہ بنا دیا ہے، جہاں بوزدار اور گبول برادری آمنے سامنے آ گئی ہیں اور دونوں جانب سے تھانے پر اپنی اپنی “حکومت” قائم ہونے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ اس غیر معمولی صورتحال نے نہ صرف پولیس کی غیر جانبداری بلکہ ریاستی رٹ پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
علاقائی ذرائع کے مطابق، بوزدار برادری کا مؤقف ہے کہ جروار تھانے پر ان کا اثر و رسوخ تسلیم کیا جائے، جبکہ گبول برادری بھی یہی دعویٰ کر رہی ہے کہ تھانے کا کنٹرول ان کے پاس ہونا چاہیے۔ اس کشمکش نے علاقے میں بے چینی کو جنم دے دیا ہے اور عوام میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ آیا تھانے قانون کے ماتحت ہیں یا قبائلی جاگیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں؟ اگر ہر برادری اپنی مرضی کا نظام نافذ کرے گی تو قانون کی حکمرانی کہاں باقی رہے گی؟
دوسری جانب، گاؤں میر خان گبول کے رہائشیوں، سیاسی و سماجی کارکنوں نے جروار کے مین چوک پر کئی گھنٹوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔ مظاہرین کا واضح اور دوٹوک مؤقف ہے کہ جب تک متعلقہ پولیس اہلکار دھرنے کی جگہ پر آ کر عوام سے معافی نہیں مانگتے، اس وقت تک احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا۔
دھرنے کے باعث جروار مین چوک پر ٹریفک مکمل طور پر جام ہو چکی ہے، جبکہ کاروباری سرگرمیاں معطل اور روزمرہ زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ حالات میں مسلسل کشیدگی بڑھ رہی ہے، جس کے باعث کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
علاقے کے باشعور شہریوں، وکلا اور سماجی حلقوں نے آئی جی سندھ، ڈی آئی جی، ایس ایس پی گھوٹکی اور ضلعی انتظامیہ سے فوری اور سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر بروقت مداخلت نہ کی گئی تو صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
عوامی حلقوں نے زور دیا ہے کہ تھانے کو ہر قسم کے قبائلی اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر کے قانون کی بالادستی قائم کی جائے، تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور ریاستی رٹ پر اٹھنے والے سوالات کا عملی جواب دیا جا سکے۔







