میرپورخاص (باغی ٹی وی، نامہ نگار سید شاہزیب شاہ) نجی علی میڈیکل سینٹر میں 40 سالہ صفیہ پنہور ایک معمولی رسولی (گلٹی) کے آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ڈاکٹروں اور عملے کی غفلت سے جاں بحق ہو گئی۔ لواحقین کے مطابق خاتون کا آپریشن مکمل ہونے کے بعد بلڈ پریشر اچانک گر گیا، لیکن اس نازک وقت میں نہ کوئی ڈاکٹر موجود تھا اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ، جس کے باعث مریضہ نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
واقعے پر لواحقین اور پنہور برادری مشتعل ہو گئے، جنہوں نے پہلے ہسپتال کے اندر لاش رکھ کر احتجاج کیا اور بعد ازاں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ بعد میں لاش کو ایمبولینس میں رکھ کر پریس کلب کے سامنے پوسٹ آفس چوک پر سڑک بلاک کر دی گئی، جس کے نتیجے میں شہر کی مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک مفلوج ہو گئی۔
ورثاء اور مظاہرین نے علی میڈیکل سینٹر کی انتظامیہ، ڈاکٹر گلشن خواجہ اور مالک مجید میمن پر قتلِ عمد (دفعہ 302) کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کرنے کے باوجود ہسپتال نے صفیہ پنہور کو ایمرجنسی میں تنہا چھوڑ دیا اور واقعے کے وقت نہ ڈاکٹر گلشن موجود تھیں نہ ہی دیگر طبی عملہ۔ مظاہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری کارروائی نہ ہوئی تو احتجاج کا دائرہ کار سندھ بھر میں پھیل جائے گا۔
لواحقین نے یہ بھی الزام لگایا کہ ڈاکٹر گلشن خواجہ ماضی میں بھی خواتین کی ہلاکتوں کی ذمہ دار رہی ہیں لیکن ہر بار انتظامیہ نے معاملہ دبایا۔ سول ہسپتال میں صفیہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم تین رکنی میڈیکل بورڈ کے ذریعے کروایا جا رہا ہے تاکہ موت کی اصل وجہ کا تعین کیا جا سکے۔
برادری کا کہنا ہے کہ علی میڈیکل سینٹر کی انتظامیہ نے غفلت کو چھپانے کی کوشش کی اور اسے صرف ایک "میڈیکل پیچیدگی” قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی، حالانکہ یہ واضح انسانی غفلت ہے جس پر قانونی و اخلاقی طور پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔