بحریہ ٹاؤن کے 190 ملین پاؤنڈز کے اسکینڈل میں اب تک کی سب سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں مرزا شہزاد اکبر کو مرکزی کردار ادا کرنے والا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
شہزاد اکبر جو سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون اور احتساب کے حوالے سے خاص ذمہ داری نبھاتے تھے، ان پر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات کے سامنے ہیں،آزادنیوز کے مطابق یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف مالی بدعنوانی کی تحقیقات میں 190 ملین پاؤنڈز کی ریکوری کی پیشکش کی۔ یہ رقم پاکستان کی سرکاری ملکیت میں ہونی چاہیے تھی، لیکن تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس کو غیر قانونی طریقے سے ایک مخصوص اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا، جس کا تعلق رجسٹرار سپریم کورٹ پاکستان سے تھا۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مزا شہزاد اکبر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ انہوں نے 6 نومبر 2019 کو ایک "کانفڈینشیئلٹی ڈید” پر دستخط کیے، جس میں رجسٹرار کے اکاؤنٹ کو "ڈیزگنیٹڈ اکاؤنٹ” قرار دیا گیا تاکہ رقم اسی اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔ اس معاہدے پر دیگر متعلقہ افراد جیسے ضیاءالمصطفیٰ نسیم نے بھی دستخط کیے۔مزید یہ کہ شہزاد اکبر نے کابینہ کی منظوری لینے سے پہلے یہ دستاویز خود دستخط کر دی تھی، اور پھر 3 دسمبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں اس کی منظوری کے لیے پیش کیا، جو کہ حکومتی عمل میں دھوکہ دہی اور جان بوجھ کر حقائق چھپانے کا واضح ثبوت ہے۔
شہزاد اکبر اور ضیاءالمصطفیٰ نسیم نے 2019 میں برطانیہ کے دو دورے کیے، جن میں انہوں نے نیشنل کرائم ایجنسی اور برطانوی ہوم سیکرٹری سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کا مقصد مالی جرائم کی تحقیقات اور رقم کی حوالگی سے متعلق بات چیت تھی۔تاہم، اس دوران پاکستان کے نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک جیسے اداروں کو مذاکرات سے مکمل طور پر خارج رکھا گیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپے کے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
کانفڈینشیئلٹی ڈید، جس پر شہزاد اکبر نے 6 نومبر 2019 کو دستخط کیے، جو کہ اصل میں غیر قانونی اکاؤنٹ کو مالی رقوم منتقل کرنے کے لیے ایک سرکاری اجازت نامہ تھا۔ کابینہ کی منظوری کے بغیر رقم کی منتقلی، جو قانونی تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔مارچ 2019 میں شہزاد اکبر اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان اس اسکینڈل کے حوالے سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں اہم معلومات کو چھپایا گیا۔سرکاری خطوط اور نوٹیفیکیشنز، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شہزاد اکبر کے پاس قانونی دائرہ کار کے اندر کام کرنے کی ذمہ داری تھی، مگر انہوں نے اپنی ذاتی مرضی سے قواعد کی خلاف ورزی کی۔
تحقیقات میں واضح ہوا ہے کہ اس سازش کی وجہ سے پاکستان کے قومی خزانے کو 190 ملین پاؤنڈز کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ اس اسکینڈل میں شامل افراد کی غفلت اور بدانتظامی کی بنا پر یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے غیر قانونی طور پر منتقل ہوئی، جس سے ملک کی معیشت اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
3 فروری 2019 کی کابینہ میٹنگ سے پہلے 06.11.2019 کو معاہدے پر دستخط کرنے سے اس کی بد نیتی ظاہر ہوتی ہے۔نومبر 2019 کے آخری ہفتے یعنی کابینہ اجلاس سے پہلے برطانیہ سے پاکستان کو جرائم کی رقم کی منتقلی اس بات کا ثبوت ہے۔ اعظم خان کا بیان، جس میں ملزم عمران خان اور اشتہاری مجرم مرزا شہزاد اکبر کے 02.03.2019 کو نوٹ پر ملاقات کا ذکر ہے۔شہزاد اکبر نے کابینہ سے حقائق چھپائے اور معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اسے بغیر کسی اجازت کے مکمل کر لیا۔تحقیقات میں اس کی اہمیت اور بد نیتی کے شواہد واضح ہیں اور وہ اس وقت اشتہاری مجرم کے طور پر مطلوب ہیں۔دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ شہزاد اکبر نے کابینہ سے اہم حقائق چھپائے اور ایسی کارروائیاں کیں جن کے لیے انہیں قانونی اختیار حاصل نہیں تھا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس جان بوجھ کر کی گئی بدانتظامی نے ایک غیر قانونی منتقلی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے میں مدد فراہم کی، جس سے پاکستان کے قومی مفاد کو شدید نقصان پہنچا۔ حکام اب اس سنگین معاملے میں ملوث تمام افراد سے مکمل احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔








