رواں ہفتے کے آغاز پر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کو ’خصوصی سرکاری ملازم‘ کا درجہ دیا ہے۔

یہ عہدہ ایلون مسک کو وفاقی حکومت کے لیے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن ممکنہ طور پر انھیں مفادات کے ٹکراؤ اور مالی معاملات ظاہر کرنے والے اُن قواعد سے مستثنیٰ رکھتا ہے جو امریکا کے عام سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں۔مسک الیکٹرک کار کمپنی ’ ٹیسلا‘ اور ایرو سپیس کمپنی ’سپیس ایکس‘ چلانے کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کے مشیر بھی ہیں اور انھیں کفایت شعاری مہم یعنی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (Doge) کی قیادت سونپی گئی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی ایک سرکاری ادارہ یا محکمہ نہیں بلکہ ایک ٹیم ہے جسے ٹرمپ نے غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کٹوتی کے لیے وسیع اختیارات دیے ہیں۔

اس کی قانونی حیثیت تو غیر واضح ہے ہی مگر اس کے ساتھ اس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کانگریس سے مشاورت کے بغیر یو ایس ایّڈ جیسی حکومتی ایجنسیاں بند کرنے کے اختیار کے متعلق بھی خاصا ابہام پایا جاتا ہے اور مسک اور ان کی ٹیم کو اس ضمن میں کئی عدالتی چیلنجز کا سامنا ہے۔سپیس ایکس کے سی ای او کی حیثیت سے مسک اربوں ڈالر مالیت کے پینٹاگون اور انٹیلیجنس کمیونٹی کے معاہدوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔یاد رہے کہ امریکی قانون میں خصوصی سرکاری ملازمین کو زیادہ سے زیادہ 130 دن کے لیے مقرر کیا جاتا ہے لیکن صدر ٹرمپ نے ابھی یہ واضح نہیں کیا کہ مسک کا عہدہ کب تک برقرار رہے گا۔

جب کسی فرد کو ’خصوصی سرکاری ملازم‘ کا درجہ دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت کے لیے عارضی طور پر کام تو کرتے ہیں لیکن انھیں مکمل سرکاری ملازم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ عہدہ عام طور پر ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جو کسی خاص منصوبے کے لیے حکومت کو کنسلٹینسی وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔ایلون مسک کے کیس میں ’خصوصی سرکاری ملازم‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کے مختلف منصوبوں جیسے ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی‘ کی نگرانی کرتے رہیں گے مگر انھیں سرکاری ملازمین کی طرح سخت قوانین کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس سے انھیں کام کرنے میں زیادہ آزادی تو ملے گی لیکن اس کے نتیجے میں شفافیت اور جوابدہی کے حوالے سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ٹرمپ مسک کے اقدامات پر قریبی نظر تو نہیں رکھ رہے لیکن انھیں اس سے متعلق باقاعدگی سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو مسک کی سرگرمیوں کی ’تمام معلومات دی جا رہی ہیں۔‘صدر ٹرمپ کے سب سے اہم حامی سمجھے جانے والے مسک نے ان کی انتخابی مہم کو 11 کروڑ 90 لاکھ کا فنڈ دیا تھا۔ مسک صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے والی ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس دوران انھوں نے ہر روز 10 لاکھ ڈالر بھی تقسیم کیے۔

پاک بحریہ کی نویں کثیر القومی بحری مشق امن کا آغاز

پیٹرول، چینی، نمک مہنگا ٹماٹر، پیاز، مرغی سستی ہوئی، ہفتہ وار رپورٹ

پولیو ورکر سے جھگڑا کرنے والے 3افراد گرفتار،مقدمہ درج

پانی کی لائن ڈالنے پر لڑائی، فائرنگ سے2 افراد جاں بحق،3زخمی

Shares: