معاملہ فہمی سے کام لیا جائے ،تجزیہ : شہزاد قریشی
وطن عزیز کے سیاسی میدان میں آج کل جو سرگرمیاں مشاہدہ کی جا رہی ہیں، ان کو بجا طور پر دھینگا مشتی اور ہاتھا پائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ سلسلہ اب عدالتوں کے ماحول کو بھی مکدر کر رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ، عمران خان کی اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس میں آمد کے موقع پر جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی وہ اس کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف جو اقدامات کیے ان کو اگر ’’انتقامی روئیے ‘‘ سے منسوب نہ بھی کیا جائے تو وہ عملی طور پر اسی زمرے میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی وسوسے اور خدشات کو جنم دیتی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ ، رانا ثناء اللہ خان نے عمران خان کی جوڈیشل کونسل میں آمد کے موقع پر اور اسی حوالہ سے یہ بیان دیا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس میں گرفتار کریں۔ ایک عامی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی اور انتقام کا درجہ کیوں دیا جاتا ہے۔

اگرچہ نام نہاد دانشور اور انگریزی سیاسی اصطلاحات زدہ طبقہ ملکی امور کے سلسلہ میں ’’چائے کی پیالی میں طوفان ‘‘ اٹھانے پر ہی اکتفا کرتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں محب وطن عوام کی ایک بڑی تعداد ان احوال کے حوالہ سے فکر مند ہے ۔
دریں اثناء عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں عندیہ دیا ہے کہ ہم مسلط ٹولہ کو الیکشن سے بھاگنے نہیں دیں گے یعنی وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ الیکشن کے لیے ان کی تیاری مکمل ہے۔ اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے ساہیوال میں پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ کارکن، الیکشن کی تیاری کریں۔ ایسے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ردعمل سے بھی یہ تاثر نمایاں ہوتا ہے کہ عدالتی کارروائی سے قطع نظر، الیکشن کا انعقاد ہی سیاسی پیش رفت کا بنیادی اور کلیدی نکتہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کو کسی طور بھی سیاسی صورت حال سے الگ اور دور تصور نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کے لیے یہ بات بجا طورپر تشویش کا باعث ہے کہ سیاسی قیادت خوش فہمی اور غلط فہمی کے معاملہ میں خود کفیل ہے اور اس کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ مہنگائی، بیروزگاری، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، جرائم میں اضافہ اور آئی ایم ایف کے احکامات کے نتیجہ میں ٹیکسوں کی بھرمار کا شکار عوام ان (سیاست دانوں) سے اب بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ قومی امور اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کم از کم سیاسی سطح پر خوش فہمی اور غلط فہمی کی بجائے معاملہ فہمی سے کام لیا جائے۔

Shares: