غیراخلاقی گفتگو،معاشرہ کہاں‌جا رہا؟ذمہ دار کون.تجزیہ:شہزاد قریشی

0
152
qureshi

چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری نکاح ، طلاق ،عدت پر جاری مسائل قرآن و سنت سے ماخوذ پر شرعی حدود قیود ہیں،اس پر بحث کرنے سے منع کیا ہے۔ بلاشبہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے درست کہاہے ۔ افسوس ہم اسلامی ملک کے دعویدار ہیں ،ہم اپنی آنے والی نوجوان نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیاپر اس طرح کے بیانات پرکیا کبھی کسی نے سوچا ہے ،معاشرے کی نوجوان بچیوں اور بچوں کو کیا سبق پڑھا رہے ہیں؟ یہ عین شرعی مسائل ہیں ۔ ان شرعی مسائل کے بارے میں مباحثہ مناسب نہیں اس طرح کی بحث سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ عمر سیدہ سیاستدانوں ،بیورو کریٹ ، دانشور اور دیگر سے یہی التجا کی جا سکتی ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کی بحث کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ معاشرے میں اخلاقی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے معاشرہ ہرلحاظ سے زوال پذیر ہوتا ہے۔ افسوس صد افسوس اس طرح کی بحث سے بے حیائی کو فروغ دینے کے مترادف ہے ۔ حد ہو گئی کہ سینکڑوں علمائے دین ، مذہبی جماعتیں اس بے حیائی کو روکنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ یاد رکھیئے فرمان الٰہی اور فرمان نبوی کو اپنی مرضی ،اپنی طبیعت کے مطابق ڈھالنے کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ دینی حلقوں کے اسٹیج سے فرضی کہانیاں بنانے والوں نے کبھی سوچا کہ ہم اس طرح کی غیر اخلاقی گفتگو جو سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا کی زینت بن رہی ہے اس کے اثرات معاشرے پر کیا ہونگے؟

پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھے اپنی طاقت پر اترانے والوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے ؟ معاشرے کو سدھارنے کی بجائے ہم معاشرے کو کدھر لے کر جا رہے ہیں؟ کیا ایک اسلامی معاشرے اورانسانیت کو پامال نہیں کررہے ۔یاد رکھیے مرنے کے بعد حساب دینا ہے ۔حساب لینے والا لے گا ۔ اپنے دل پر ہاتھ کر غور کریں کیا ہم حد کراس نہیں کررہے ۔ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کی غیر اخلاقی گفتگو معاشرے کے نوجوانوں پرکیا اثرات مرتب کرتی ہے۔معاشی لحاظ سے قوم پہلے ہی زوال پذیر ہے۔ خدارا اخلاقی زوال سے قوم کو بچا لیجئے۔

Leave a reply