معاشرے سے حیا کے انخلاء کی سازشیں—از– صالح عبداللہ جتوئی

0
83

آج کل ایک ایسا طبقہ سرگرم ہو چکا ہے جو کہ عورت کے حقوق کے نام پہ عورتوں کو بے حیائی کی طرف راغب کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے مختلف حربے اپناۓ جا رہے ہیں جن کا عورتوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آج وہی عورت جو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگا رہی ہے اس کو زمانہ جاہلیت میں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور لڑکی کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا تھا لیکن جس اسلام کو یہ پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو فحاشی کی دلدل میں دھنسا رہی ہیں اسی اسلام نے عورت کو معاشرے میں بہترین مقام عطا فرمایا اور ان کو عزت و وقار سے مزین فرمایا۔

کچھ دن پہلے ایک پروگرام میں ماروی سرمد نامی لبرل عورت کو ایک مولانا صاحب اور مصنف خلیل الرحمٰن قمر کو عورت مارچ کے حوالے سے گفتگو کے لیے مدعو کیا اور وہاں پہ بحث و تکرار میں تلخ الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا اور خلیل الرحمٰن قمر کا لہجہ قدرے سخت ہو گیا لیکن ان کا مؤقف بالکل ٹھیک تھا کہ عورتوں کے حقوق کے لیے ہم بھی سڑکوں پہ نکلنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم یہ نعرہ کبھی بھی نہیں لگنے دیں گے کہ میرا جسم میری مرضی۔

یہ نعرہ تو شرک اور گمراہی کی طرف بڑھتا ایک قدم ہے کیونکہ یہ جسم اللہ کی امانت ہے اب ہم پہ منحصر ہے کہ ہم اسے اللہ کے احکامات پہ عمل پیرا ہونے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر اپنی من مانی کرتے ہوۓ سرکشی کا رستہ اختیار کرتے ہیں اور فحاشی کو فروغ دیتے ہوۓ اللہ کو ناراض کرکے دونوں جہانوں کا سکون برباد کرتے ہیں۔

دراصل اس مارچ کو تقویت دینے کے لیے ایسے ڈرامے رچاۓ جاتے ہیں اور یہ طبقہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت کفار کے اشاروں پہ ناچ رہا ہے جس کا مقصد ملک پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی کو عام کرنا ہے ایسی عورتوں کی نہ تو گھر میں کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ ہی معاشرے میں انہیں کوئی اہمیت دیتا ہے۔

خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے کرخت لہجہ استعمال کرتے ہوۓ عورت مارچ کو ایجنڈے کو کاؤنٹر کرنے کی بجاۓ اسے مزید تقویت دے دی ہے اور وہی ہو رہا ہے جو اس طرح کی لبرل عورتیں چاہتی ہیں اور اب ان کی حمایت میں کئی نام نہاد نیم حکیم اینکر اور براۓ نام ملا حضرات کیڑوں مکوڑوں کی طرح بلوں سے نکل آۓ ہیں اور ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

یہ اسلامی ملک کو لبرل ملک کا درجہ دینے کے لئے اور اپنے مذموم ایجنڈوں کے فروغ کے لیے ایسے نعروں کی تشہیر جاری و ساری ہے اور ان کا مقصد معاشرے کو بے راہ روی کا شکار کرنا ہے اور حقوق کے نام پہ ناچ گانا اور بے پردگی کو فروغ دینا ہے۔

اسلام تو عورتوں کو کئی حقوق سے نوازتا ہے کبھی ماں کی صورت میں کبھی بیٹی کی صورت میں تو کبھی بہن کی صورت میں لیکن یہ کیسی عورتیں ہیں جو مردوں سے نفرت کرتی ہیں اور ان کو غلط ثابت کرنے پہ ہی تلی ہوئی ہیں اور شادی کی بجاۓ اکیلے رہنے کا درس دیتی ہیں اور نہ انہیں باپ کی شفقت نصیب ہوتی نہ بھائیوں کی محبت اور نہ ہی شوہر کا پیار نصیب ہوتا ہے کیونکہ اسلام نے عورت کی حدود مقرر کی ہیں جس میں رہتے ہوۓ اسے زندگی گزارنی چاہئے اگر وہ ان حدود کی پامالی کرے گی تو معاشرہ بے حیائی کی طرف راغب ہو گا اور گمراہی اس کا مقدر بن جاۓ گی اور یہی اس نعرے میرا جسم میری مرضی کا مصداق بھی ہے۔

میرا جسم میری مرضی کی بجاۓ ہمیں میرا جسم میرے اللہ کی مرضی کا نعرہ لگانا چاہئے کیونکہ ہمیں بالکل بھی حق نہیں ہے کہ ہم اپنے جسم کو اللہ کی نافرمانی میں ڈھال کر اس کی ناراضگی کو اپنا مقدر بنائیں اور اس جسم کو آگ میں جھونک دیں۔

یہ جسم اس رب نے بنایا ہے اور اسی کی مرضی ہی چلے گی تو ہمیں چاہئے کہ ایسے ایجنڈوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کے خلاف کرخت لہجہ اپنانے کی بجاۓ نرم طریقے سے اپنے مؤقف اور دلائل کو مضبوط کیا جاۓ اور معاشرے میں اسلامی قوانین و تعلیمات کو فروغ دیا جاۓ تاکہ معاشرے سے ایسے ناسوروں کا خاتمہ ہو سکے۔

اللہ اس ملک پاکستان اور اسلام کا حامی و ناصر ہو آمین ثمہ آمین۔
پاکستان زندہ باد
اسلام پائندہ باد

معاشرے سے حیا کے انخلاء کی سازشیں

صالح عبداللہ جتوئی

Leave a reply