موبائل کا دور بھی جانے والا ہے، تحریر: عفیفہ راؤ

گزشتہ چند سالوں میں موبائل فونز نے اتنی ترقی کی ہے کہ اب ہر انسان وہ چاہے دنیا کا امیر ترین شخص ہو یا غریب ریڑھی والا، کوئی ملٹی نیشنل فرم میں کام کرنے والی خاتون ہو یا پھر گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ، ستر سال سے زائد عمر کا بوڑھا انسان ہو یا کوئی بچہ ہو آپ کو ہر ایک سمارٹ فون استعمال کرتا ضرور نظر آئے گا۔ یہاں تک کہ اب یہ انسانوں کی ضرورت سے زیادہ ایک عادت بن گیا ہے کہ ہر انسان نے اس کو تمام وقت اپنے پاس رکھنا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے آخری کام یہی ہوتا ہے کہ فون پر آئے تمام نوٹیفکیشنز کولازمی چیک کرنا ہے اسی طرح صبح اٹھ کر بھی سب سے پہلے موبائل چیک کرنا ہے کہ کہیں کوئی ضروری میسج تو نہیں آیا۔

لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ موبائل فون یا سمارٹ فون کی جگہ اب کوئی نیا Gadget ہو جو یہ تمام کام کرے جو سمارٹ فون کرتا ہے۔ اب ایسے Gadget کا ہمیں انتظار نہیں کرنا کہ وہ کب ایجاد ہو گا اور کب ہم تک پہنچے گا بلکہ وہ Gadget بن بھی چکا ہے اور وہ مارکیٹ میں دستیاب بھی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جیسے سمارٹ فون رکھنا اب انسانوں کی مجبوری بن چکا ہے تو کیا یہ نیا Gadgetبھی اسی طرح ہماری زندگیوں میں اپنی جگہ بنا سکے گا یا نہیں۔۔۔سمارٹ فون ایک ایسی ڈیوائس ہے جس کے ساتھ ہم اپنے دن کا زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں اور جس کے ہمارے استعمال میں آنے کے بعد بہت سی ایسی ڈیوائسز ہیں جو کہ ہم نے اب استعمال کرنا چھوڑ دی ہیں۔ جیسے Wrist watches،Cameras،Alarm clock اور چارج لائٹ وغیرہ۔۔۔ اب دنیا بھر میں کروڑوں لوگ الارم کلاک کی بجائے موبائل الارم استعمال کرتے ہیں جو وقت دیکھنے کے لئے گھڑی کا استعمال نہیں کرتے بلکہ فون پر وقت دیکھ لیتے ہیں بلکہ کلینڈر بھی فون پر ہی کھول کر دیکھا جاتا ہے۔ کیمروں کی جگہ بھی موبائل فون کا کیمرہ ہی استعمال ہوتا ہے اب کیمرے صرف پروفیشنل لوگ خریدتے ہیں ورنہ ہر ایک کے ہاتھ میں آپ کو سمارٹ فون کا کیمرہ ہی نظر آئے گا۔ اب کوئی بھی ٹارچ لائٹ الگ سے اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ موبائل میں موجود ٹارچ سے کام چلایا جاتا ہے۔ سٹاپ واچ اور آڈیو ریکارڈر بھی موبائل میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کے بچوں نے ہو سکتا ہے کہ کاغذوں پربنے ہوئے نقشے کبھی دیکھے ہی نہ ہوں لیکن ان کو سمارٹ فون میں موجود گوگل میپ کا ضرور پتہ ہے کہ وہ کیسے استعمال کرنا ہے۔ خواتین نے الگ سے اپنے ہینڈ بیگز میں شیشہ رکھنا چھوڑ دیا ہے شیشے کا کام بھی سمارٹ فون کی ڈسپلے سکرین یا پھر فرنٹ کیمرے سے لیا جاتا ہے۔ I-pod اور ریڈیو کا کام بھی سمارٹ فونز نے ہی سنبھال لیا ہے۔ یہاں تک بہت سے ایسے کام جو ہم پہلے صرف کمپیوٹرز پر کرتے تھے ان کے لئے بھی اب ہم سمارٹ فون ہی استعمال کرتے ہیں جیسے ای میلز کے لئے، آن لائن شاپنگ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے کے لئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسمارٹ فونز نے ہمارا تصور ہی بدل دیا ہے کہ فون ہوتا کیا ہے اور اب وہ صرف کال کرنے والی سادہ ڈیوائس نہیں، درحقیقت ایک اسمارٹ فون مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا منی کمپیوٹر ہے جسے ہم اپنی زندگیوں میں بہت سارے کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔لیکن اب فیس بک نے ایک ایسی ایجاد کی ہے جو کہ بہت ہی حیران کن ہے۔ جس طرح پہلے بہت سارے Gadgetsکے فنکشنز سمٹ کر ایک سمارٹ فون میں آگئے تھے ویسے ہی اب فیس بک نے گلاسز بنانے والی بہت ہی مشہور کمپنی Ray Banکے ساتھ مل کر ایسے گلاسز تیار کئے ہیں جس میں وہ سب فنکشنز ایڈ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ہم اپنے سمارٹ فونز سے کرتے ہیں۔

فیس بک کے ان اسمارٹ گلاسز کا نام Ray ban storiesہے۔ یہ اسمارٹ گلاسز دیکھنے میں عام چشمے جیسے ہی نظر آتے ہیں مگر ان سے اسمارٹ فونز جیسے کافی کام کیے جاسکتے ہیں۔
ان اسمارٹ گلاسز میں پانچ پانچ میگا پکسل کے دو کیمرے موجود ہیں جن سے ہاتھ کا اشارہ کرکے تصاویر کھینچی جاسکتی ہیں اور ویڈیو بھی ریکارڈ کی جاسکتی ہیں۔ ساتھ ہی دونوں کیمروں کی مدد سے یوزر 3D effectsکو تصویروں اور ویڈیوز ایپ میں اپ لوڈ کرکے ایڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور ان تصویروں اور ویڈیوز کو فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹا گرام پر شیئر بھی کیا جا سکتا ہے۔ لائیو اسٹریم اور فیس بک پاور اے آئی سے اور بھی بہت سے کام کئے جا سکتے ہیں۔ اسمارٹ گلاسز میں کیمرے کے ساتھ ساتھ سپیکر اور مائیکروفون بھی ہے جس سے ہم گلاسز کے ذریعے فون کال بھی سن سکیں گے اور اس پر اپنی پسند کا میوزک بھی سنا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی ان گلاسز کے یہ تمام فنکشنز استعمال کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کو کسی آئی او ایس یا اینڈرائیڈ ڈیوائس سے کنکٹ کیا جائے اور فیس بک کی نئی View appکی مدد سے رے بین گلاسز سے کھینچی جانے والی تصاویر یا ویڈیوز یا میڈیا فائلز کو فونز میں ٹرانسفربھی کیا جاسکتا ہے۔اور استعمال میں یہ سمارٹ گلاسز اتنی ہلکی ہیں کہ ان کا وزن پچاس گرام سے بھی کم ہے اور یہ Leather Hard shell charging caseکے ساتھ ملتے ہیں اور کمپنی کا دعوی ہے کہ سمارٹ گلاسز کی بیٹری پورا دن کام کرتی ہے۔

گلاسز میں 2 بٹن بھی ہے جن میں سے ایک میڈیا ریکارڈ کرنے کا کام کرتا ہے اور دوسرا آن آف سوئچ ہے۔گلاسز کی رائٹ سائیڈ میں ایک ٹچ پیڈ ہے جس سے مختلف کام جیسے Volume adjustmentیا فون کال ریسیو کی جا سکتی ہے۔گلاسز میں کمیرے کے ساتھ وائٹ ایل ای ڈی لائٹ ہوتی ہے جو ویڈیو ریکارڈ کرتے ہوئے آن ہو جاتی ہے جس سے آس پاس موجود لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ویڈیو ریکارڈ کی جارہی ہے۔یہ اسمارٹ گلاسز ابھی واٹر پروف نہیں ہیں توان کو استعمال کے دوران پانی سے بچانا ہوگا۔یہ اسمارٹ گلاسز رے بین کے 3 کلاسیک اسٹائلز میں دستیاب ہیں اور مختلف رنگوں اور lens کے ساتھ خریدے جاسکتے ہیں۔ اور ان گلاسز کو نظر کے چشمے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔2020میں فیس بک کی آمدنی86 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی جس کے بعد کمپنی اپنا زیادہ ترسرمایہVirtual and augmented realityپر لگا رہی ہے۔Virtual realityدراصل ایک ایسا تجربہ ہے جو انسانوں کو ڈیجیٹل چیزوں کو حقیقت سے قریب تر دکھانے کے ساتھ انہیں محسوس بھی کرواتا ہے۔اس کے علاوہ اسمارٹ گلاسز میں Virtual assistantکی خصوصیت بھی ہے جس کے ذریعے ہاتھ کا اشارہ کیے بغیراستعمال کرنے والا صرف اپنی آواز کی مدد سے ہی تصاویر اور ویڈیوز بنا سکتا ہے۔لیکن ان سمارٹ فونز کی طرح ان گلاسز کو ہم ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے اس کے حوالے سے فیس بک نے ایک مکمل گائیڈ لائن بھی جاری کی ہے جس کے مطابق ان گلاسز کو نجی مقامات مثلا باتھ روم وغیرہ میں استعمال کرنا منع ہے اس کے علاوہ اسے غیر قانونی عمل جیسے ہراساں کرنا یا حساس معلومات یعنی پن کوڈز وغیرہ کے حصول کے لیے استعمال کرنا بھی منع ہے۔بہت سے فنکشنز تو ابھی بھی ان گلاسز میں ایڈ ہیں لیکن آنے والے دنوں میں یہ سپر گلاسز یاداشت کو بڑھانے، غیر ملکی زبانوں کا فوری ترجمہ، ارگرد ہونے والی بات چیت یا آوازوں کو کانوں میں جانے سے روکنے کے ساتھ ساتھ ایک نظر میں انسان کے جسمانی درجہ حرارت کے بارے میں بھی بتانے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔Facial recognationکی ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ اسمارٹ گلاسز ڈیٹا بیس میں موجود معلومات کی بنیاد پر سامنے والے شخص کو نہ صرف پہچان سکیں گے بلکہ اس کی دیگر معلومات تک رسائی بھی حاصل کر سکیں گے۔جس کی وجہ سے ان سمارٹ گلاسز پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کو اختیار مل جائے گا کہ وہ دوسروں کی ذاتی معلومات حاصل کر کے انھیں تنگ کر سکیں۔ لیکن فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ سیکیورٹی ایشو سے متعلق تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔ اور ان کو ہر لحاظ سے محفوظ بنانے کے لئے جو ضروری اقدام ہوں گے وہ لازمی کئے جائیں گے۔ان سمارٹ گلاسز کو بنانے والے سائنسدانوں کے مطابق اے آر ٹیکنالوجی پر مبنی یہ گلاسز بہت جلد اسمارٹ فون کی جگہ لے لیں گے اور روزمرہ کی کمپیوٹنگ ڈیوائس بن جائیں گے۔ خاص طور پر دس سے پندرہ سال کے اندر لوگ اب فونز کی جگہ یہ اسٹائلش چشمے ہی پہننا پسند کریں گے۔جس کے بعد ہم کہہ سکیں گے کہ جیسے سمارٹ فون نے دوسرے Gadgetsکو نگل لیا تھا اور ان کی ضرورت ختم کر دی تھی اسی طرح اب آنے والے سالوں میں انسانوں کی صرف سمارٹ فونز پر Dependenceختم ہو جائے گی۔ اور ابھی تو صرف گلاسز ایجاد ہوئے ہیں جبکہ چانسز تو یہ بھی ہیں کہ آنے والے سالوں میں اور بھی Smart gadget ایجاد ہو جائیں جو کہ سمارٹ فون پر ہمارا انحصار بالکل ختم ہی کر دیں۔

Comments are closed.