موبائل فون کے سنگ سفر…!!![طنز و مزاح]
(تحریر:جویریہ بتول)۔
(نوٹ:یہ تحریر حس لطافت کے پیرائے میں مزاح و اصلاح کی ایک کاوش ہے)۔
ایک وقت تھا جب ہم سکول جاتے تھے تو جب ٹیچرز کو گھر میں کسی سے رابطہ کرنے کے لیئے کوئی سورس چاہیئے ہوتا تھا تو محلے کے کسی گھرانے کا نمبر دیا جاتا تھا، وہاں سے پیغام گھر پہنچتا ہے۔
تب کی پیڈ موبائل نئے نئے دیہات تک پہنچنا شروع ہوئے تھے۔
آہستہ آہستہ پاکستان نے ترقی کے مدارج طے کیئے اور سیل فون ہر گھر اور پھر گھر کے ہر فرد کی ضرورت بن گیا،چاہے وہ چھوٹا تھا یا بڑا…
پڑھا لکھا تھا یا اَن پڑھ…
وسیع رابطوں والا تھا کہ محدود…
ہمارے گھر بھی جب کی پیڈ موبائل نے انٹری کی تو پہلے پہل تو اتنا ڈر لگتا تھا کہ پتہ نہیں اس کو ہاتھ لگ گیا تو کچھ غلط نہ ہو جائے،
بلکہ سیل کسی اونچی جگہ رکھا جاتا تھا کہ گھر کے بچے اور بالخصوص بچیاں اس سے دور ہی رہیں…
الحمدللہ ہر کام کو فوراً سمجھ لینے کی صلاحیت کے باوجود مجھے سیل فون کی بہت کم ہی سمجھ آتی تھی۔
شروع شروع میں لوگ مس بیل دینا ایک فیشن سمجھتے تھے،
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شعور نے باور کرایا کہ یہ اولڈ فیشن بن چکا ہے،اب مس کال بھلا کون دیتا ہے؟
جب ایس ایم ایس کا سلسلہ شروع ہوا تو گھر کے سیل پر آئے کمپنی کے میسیجز اوپن کرنا رسک لگتا تھا…
ہم کبھی دیکھتے،کہ کھول کر دیکھیں مگر کس بٹن کو دبانا ہے،اندازہ نہیں ہوتا تھا۔
یوں وہ ایک چھوٹا سا خط جو سکرین پر جھلملاتا رہتا تھا،
کبھی مٹ نہ پاتا کیونکہ جب تک میسیجز پڑھ کر ان بکس میں یا ڈیلیٹ نہ کیئے جاتے،اسے تو بہر حال اپنا دیدار کراتے رہنا تھا۔
وقت گزرتا گیا کہ گھر کے لیئے ایک الگ سیل لایا گیا جو گھر میں ہی رہنا تھا…
اچانک ایک دن کسی ضروری کال کے لیئے ٹرائی کیا گیا تو بیلنس ناکافی تھا…
اب مسئلہ یہ تھا کہ بیلنس ری چارج کیسے کیا جائے؟
کارڈ کیسے اسکریچ کرتے ہیں اور کوڈ کونسا لگانا پڑتا ہے…؟
والدہ کو منایا کہ آپ سیل سمیت دکان پر جائیں اور بیلنس چارج کروا لائیں…
پھر کسی نے معلومات میں اضافہ کیا کہ اب گھر بیٹھے ایزی لوڈ بھی کروا سکتے ہیں…
لیکن دکاندار کو نمبر بتانا پڑے گا…؟
چلیں اس چیز کو رہنے دیا جائے اور خود ہی ری چارج کر لیا جائے…
ہر ایسی کیفیت میں مجھے وہ آنٹی یاد آتیں کہ جن کے بیٹے نے پہلے پہل جب کی پیڈ موبائل لیا تھا،
تو ایک دن کہنے لگیں کہ وہ سیکھنے جاتا ہے کسی کے پاس کہ کیسے کال کرتے اور سنتے ہیں،ایس ایم ایس وغیرہ…
تب ہمارے ہونٹوں پر بے اختیار ہنسی مچلتی اور اندازِ بے نیازی سے دل میں کہتے ارے یہ بھی کوئی سیکھنے والی بات ہے؟
لیکن حالات کی ستم ظریفی نے ہمیں کارڈ اسکریچ کرنا بھی سکھا دیا…
ایک دن ایک سہیلی کو کال کی تو کالر ٹیون اسماء الحسنیٰ کی سیٹ تھی،ہمارے معصوم دل میں بھی خواہش اُبھری کہ ہم بھی یہ کالر ٹیون سیٹ کریں…
لوگ تو انڈین سانگز لگاتے ہیں…
اب مرحلہ ٹیون سیٹنگ کا تھا…
جس کے لیئے بیلنس چاہیئے تھا،ہم نے سو روپے کا اس وقت میں چارج کروا کر جب لوگ بیس کے ایزی لوڈ میں بھی کام چلا لیتے تھے،کالر ٹیون سیٹ کرنا چاہی…
ٹیون کیا سیٹ کی کہ صرف پسند کرتے کرتے ہی کہ کون سی سیٹ کرنی چاہیئے،سنتے سنتے سو روپیہ اُڑ گیا…
جبکہ ٹیون سیٹنگ کے لیئے تو صرف بارہ روپے چاہیئے تھے…
اب تقریباً رونی شکل بنا کر والدہ کی مجلس میں پہنچ کر روداد سنائی تو ماں نے ممتا کا اظہار کرتے ہوئے تسلی دی کہ میں اپنی بیٹی کو اور کارڈ منگوا دیتی ہوں،پریشانی کی کونسی بات ہے…
پھر جب میسیجز ٹائپ کرنے کا طریقہ سیکھ لیا تو سادگی کا یہ عالم تھا کہ سالوں بغیر کسی پیکج کے بیلنس پھونکتے ہوئے سہیلیوں کو جواب دیا جاتا تھا کہ دن کے اینڈ تک بیلنس پھر ریڈ جھنڈی دکھا کر رخصت ہو جاتا…
کُچھ عرصہ بعد یہ عقدہ ہم پر بھی کھلا کہ پیکج کر لینے سے میسیجز زیادہ بھی ہو جاتے ہیں اور خرچ بھی کم…
مگر وہ تو میسیج کرو نہ کرو،
پیکج اپ ڈیٹ ہو کر بیلنس کو چاٹتا ہی جاتا، ہم نے بھلا اتنے میسیجز کہاں کرنے ہیں؟
جبکہ پیکج کے علاوہ دس روپے بھی ہوں تو محفوظ تو رہتے ہیں…
بجٹ اور بچے پر دل میں بحث ہوتی تھی…
کال پہ بات کرنے کی تو ہمت تو خیر آج تک بھی بہت کم آئی ہے…
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی ان ناؤن نمبر آتا تو ڈیوٹی بڑھ جاتی کہ پہلے ڈائری کی ورق گردانی شروع ہو جاتی کہ آیا یہ نمبر ڈائری میں موجود ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو چاہے کوئی قریبی رشتہ دار ہی تڑپ جاتا،کال ریسیو نہیں کرنی…
مطلب احتیاط کی حد تھی…
پھر یہی ہوتا کہ اکثر شکوے آ جاتے کہ کال ریسیو نہیں کی…!!!
بس ضرورت کی بات کو لازمًا ریسپانڈ کرنا ہوتا تھا…!!!
وقت کا پہیہ چلتا رہا…
کانوں میں گونج پڑتی وٹس ایپ،فیس بک…
اب پتہ نہیں یہ کیا بلا اور ترقی کا کوئی بہت ہی اونچا زینہ ہے شاید؟
دل ہی دل میں سوچتے…
اچھا یہ کی پیڈ میں بھی چلتے ہیں؟
جی نہیں اس کے لیئے اینڈرائڈ موبائل ہونا ضروری ہے…
اچھا…
ہم معصومیت سے جواب دیتے…
آہستہ آہستہ واٹس ایپ اور فیس بک نے بھی قدم جمانے شروع کیئے اور شہروں سے دیہات تک یہ ایپس پہنچنے لگیں تو…
اب مسئلہ اینڈرائڈ موبائل ہونا ضروری تھا…
ایک دم اتنی بڑی فرمائش ظاہر ہے چھوٹا منہ بڑی بات کے مترادف تھی اور پھر پندرہ سے بیس ہزار کا سیٹ ایک دم سے ممکن ہو بھی سکتا تھا،نہیں بھی…
اور وہ بھی بچوں کے لیئے جن کی تربیت سنجیدگی کے اصولوں پر ہوئی ہو…
جب بھی کہیں لکھنے کے حوالے سے بات ہوتی تو ہر ذمہ دار کی طرف سے یہ مشورہ ضرور سننے کو ملتا کہ آپ لکھ کر واٹس ایپ کر دیں…
اب واٹس ایپ ہماری بلا سے…
لکھنا تو ہے چاہے جیسے بھی ممکن ہو…
طویل عرصہ ہمارا اور ڈاک کا تعلق قائم رہا…
ہم نے اپنا چھوٹا سا بیگ تیار کر کے رکھنا اور بھائی کو شہر کی طرف جاتے دیکھ کر آہستگی سے نکالنا…
کبھی منتوں ترلوں تک بھی نوبت جاتی تھی لیکن صد شکر کہ فرمائش کبھی مسترد نہیں کی گئی…
اب ہمارے اس شوق کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس سے گلو خلاصی کروانے کا ایک یہی آپشن باقی تھا کہ اب آپ آرام سے ادب تحریر کر کے بھیج دیا کرو…جس کے لیئے اینڈرائڈ موبائل ہمیں تحفہ میں ملا…
اچھا بھائی اب اس پہ تو واٹس ایپ ہو جائے گی ناں؟
اور فیس بک بھی؟
بھائی پیار و ڈانٹ کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھتے کہ شریف لڑکیوں کے لیئے فیس بک پہ ہونا کوئی ضروری چیز بھی نہیں ہے اب…!!!
اچھا کیوں اگر مثبت استعمال کی جائے تب بھی…؟
ہم آگے سے خاموشی پا کر دل مسوس کر رہ جاتے کہ لگتا ہے گزارہ اب ایک ہی ایپ پہ کرنا پڑے گا…!!!
ارے یہ انسٹا کیا ہے؟
اور IMO اور BOTIM کیا چیز ہیں؟
ایک دن بہت ہی پیاری دوست سے پوچھ ہی لیا…
تب جواب نے مجھے ہنسی کے سمندر میں غوطہ زن کر دیا کہ بہنا یہ ان کے لیئے ہے جو جانو وانو پہ مریں اور دوری کی وجہ سے بآسانی باہر بھی بات کر سکیں…
اچھا یہ تو پھر بالکل ہی غیر اہم ہیں اور میرے شیڈول میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے…!!!
یو ٹیوب پر تو کچھ دیکھ لینا چاہیئے،کیا مشورہ دیتی ہیں آپ؟
ایک فرینڈ سے مشورہ کیا…
ہاں یو ٹیوب پر کافی فائدہ مند مواد اور وڈیوز ہیں، آپ دیکھ لیا کریں…
اچھا کوئی پیکج کا طریقہ بتا دیں…؟
ہم پاکٹ منی کی ایک خطیر رقم خرچ کر کے ابھی پیکج کا طریقہ آنے کے انتظار میں تھے کہ اتنی دیر میں بیلنس ہوا ہو چکا تھا…!!!
دل گھبرایا کہ ایپس کے لنڈا بازار میں گھومنا ہم جیسوں کے بس کی بات نہیں ہے جنہوں نے ہماری زندگی میں داخل ہو کر ہمیں عبادات،رشتوں اور حقیقی کردار سے یقیناً دور کر دیا ہے…
اب ہماری خوشی،غم،پیار اور نفرت بھی فیس بک،اور ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر ہی گھومتے ہیں…
نیٹ کی سپیڈ 4G نے آسانیاں بھی بہت کر دی ہیں ہر میدان میں…!!!
آہ…!!!
مگرہم زندگی کی فطری اور حقیقی خوشیوں سے بہت دور صرف تنہائی کا شکار ہو کر سکرین پر محبتیں اور رشتے ڈھونڈتے رہ گئے ہیں؟
گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی اجنبی بن چکے ہیں؟
اک گہرے درد نے انگڑائی لی…
یہ سب بے شک ضروری تو ہے…
مگر اسے ضرورت ہی سمجھیئے…
اس سب کو اپنی زندگی کے حقیقی مقاصد پر کبھی اثر انداز نہ ہونے دیجیئے اور کھوکھلی اور مصنوعی نگوں کی ریزہ کاری کے خول سے کبھی باہر نکل کر قدرت کی ٹھنڈی اور تازہ فضا میں بھی سانس لیتے رہنا چاہیئے…
کہ یہ بھی زندگی کے لیئے بہت ضروری ہے…!!!
،اپنی آنکھوں کے گرد پھیلتے سیاہ حلقوں اور اتری رنگت کا بھی خیال کر لیا کیجیئے…
اپنی پُر سکون نیند کو محض وقت گزاری اور فریب کی نذر نہ کر دیا کیجیئے کہ آج کی نوجوان نسل کے اس رویّے نے بڑے بزرگوں کو ایک سنجیدہ تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے…!!!
مثبت استعمال کیجیئے مگر وہ بھی ایک حد تک…
قانونِ فطرت کے دائرہ میں رہتے ہوئے…
ایک ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ…
اپنے اہم اور ضروری فرائض کی بجا آوری کے بعد…!!!!
کہ زندگی بہت ہی مختصر اور آگے سفر بڑا طویل ہے…
کہیں ہم ظاہریت کو سجاتے ہوئے باطن کو داغدار اور بے وقعت تو نہیں کر رہے؟
=============================
[جویریات ادبیات]۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
Shares: