مُودی فلموں میں بھی آزادی کے نعروں سے خوفزہ،بھارت کی فلم انڈسٹری بی جے پی کے زیرعتاب،مقدمہ درج
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مُودی فلموں میں بھی آزادی کے نعروں سے خوفزہ ہو گئے ، ہندوستان کی فلم انڈسٹری بی جے پی کے زیرِ عتاب آ گئی،شائننگ انڈیا کا اصل چہرہ سامنے آ گیا۔ تن دیو نامی فلم کے خلاف مُودی حکومت نے FIR کاٹ دی۔ فلم سازوں اور اداکاروں کو معافی مانگنے پر مجبور ہو نا پڑا۔ فلم تن دیو Netflex پر جاری کی گئی۔ فلم کے مرکزی کردار سیف علی خان اور ڈیمپل کپاڑیا تھے۔ اِس فلم میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کی بُنیاد پر FIRکاٹی گئی۔ لیکن اصل میں اس فلم میں مقبوضہ کشمیر میں لگائے جانے والے آزادی کے نعروں سے مماثلت اور کسان تحریک کے احتجاج کی طرز پر ڈائیلاگ اور خاکے شامل ہونے پر ایف آئی آر کاٹی گئی۔
فلم کے منتظمین کو غیر مشروط معافی مانگنے پر مجبور کردیا گیا۔ ایک ایسے ہی اور واقعے میں مزاخیہ ا داکار منو ر فاروقی کو ایک ناکردہ جُرم کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ منور فاروقی پر اندور، مدیحہ پردیش میں یکم جنوری 2021ء کو سٹیج ڈرامے میں ممکنہ ہندوؤں کے خلاف ڈائیلاگ کے حوالے سے ایف آئی آر کاٹی گئی۔ یہ شو ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہBJPممبر پارلیمنٹ کے بیٹے اکلاویہ کور کے سربراہی میں مشتعل ہندوؤں نے منور فاروقی کو اغواء کر لیا۔ اکلاویہ کو ر ہندو راکھ شک سنگاتھن کے چیف ہیں۔ اس مشتعل ہجوم نے منور فاروقی کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
پولیس نے اس اعتراف کے باوجود کہ منور فاروقی نے کوئی جُرم نہیں کیا۔ نہ صرف FIRکاٹی گئی بلکہ18دِن اُسے حبسِ بے جا میں بھی رکھا گیا۔ اب ہندوستان کی عدالتوں کو منور فاروقی کو جیل بھیجنے کیلئے دَباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ہندوستان کا پولیس اور عدالتی نظام ہندوتوا پرچار میں نہ صرف پیش پیش ہے بلکہ BJPکے مکمل قبضے میں ہے۔کیا مذہبی جذبات صرف ہندوؤں کے ہیں؟۔ کیا ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے؟ گولڈن ٹیمپل ہو یا بابری مسجد، سکھوں کی مذہبی رسومات ہوں یا مسلمانوں کی مذہبی آزادی۔BJPنے تمام دیگر اقلیتوں کا گلہ دَبا دیا ہے۔ اس چیز کا اظہار حال ہی میں UKپارلیمنٹ کر چکی ہے۔اب Bollywoodبھی ہندوتوا کے نشانے پر ہے۔کیا یہی بھارت کا اصل چہرہ ہے؟
وہ بھارت جو کبھی اپنے سافٹ امیج پر فخر کرتا تھا۔ آج بھارتی معاشرہ، رسم و رواج اور اب ثقافت بھی شدید خطرے میں ہے۔ میڈیا کے بعد اب ثقافت بھی مُودی حکومت کے زیرِ تسلط ہے ،فلم سازوں اور اداکاروں کو معافی مانگنے پر مجبور ہو نا پڑا ،فلم تن دیو نیٹ فلیکس پر جاری کی گئی ،فلم کے مرکزی کردار سیف علی خان اور ڈمپل کپاڑیا تھے ،فلم میں ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کی بنیاد پرایف آئی آرکاٹی گئی
آزادی کے نعروں سے مماثلت اور کسان تحریک کے احتجاج کی طرز پر ڈائیلاگ پرمقدمہ درج کیا گیا ،درج ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ویب سیریز کے مواد کے خلاف سوشیل میڈیا پر کافی غم وغصہ دیکھا جا رہا ہے سیریز دیکھنے کے بعد اس بات کی اطلاع ملی ہے کہ 17منٹ کے پہلے ایپسوٹ میں ہندو دیوی دتاؤں کو غلط شبہہ پیش کی گئی ہے اور بے ہودہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی وجہہ بن رہا ہے ،اسی ایپسوٹ کے 22 ویں منٹ میں ذات پات کے جھڑپ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساری ویب سیریز میں وزیراعظم کے باوقار عہدے پر فائز ایک فرد کی نہایت بدبختانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے
پولیس نے سیریز کی کری ایٹیو ہیڈ اپرنا پروہت، سیریز کے ڈائریکٹر علی عباس ظفر، پروڈیوسر ہمانشو کرشنا، اسکرپٹ رائٹر گورو سولنکی کے خلاف سماج میں نفرت پھیلانے اور مختلف مذاہب کے درمیان عناد و کشیدگی پیدا کرنے کے الزامات کے تحت کیس درج کیا ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے اس پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس سیریز کے بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اداکار سیف علی خان کی چند روزقبل ریلیز ہونے والی ویب سیریز ’تانڈوو‘ کے باعث بھارت میں ہنگامہ برپا ہے ،انتہاپسندوں کی جانب سے اداکار کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ہندو تنظیموں کی جانب سے ویب سیریز پر پابندی کا مطالبہ بھی کیاجارہا ہے،ویب سیریز کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے،
دھمکیوں اور احتجاج کے پیش نظر ممبئی کے علاقے باندرہ میں واقع سیف علی خان اور کرینہ کپور کے گھر کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
خیال رہےکہ علی عباس ظفرکی ہدایت کاری میں بننے والی ویب سیریز ’تن دیو‘ میں سیف علی خان، ڈمپل کپاڈیا، ذیشان ایوب، سنیل گروور سمیت دیگر اداکار شامل ہیں جب کہ یہ سیریز آن لائن ریلیز کی جاچکی ہے جس پر متنازع مواد کے باعث پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
بی جے پی اور متعدد سخت گیر ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ نو قسطوں پر مبنی اس ویب سیریز میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کی گئی ہے اور اس لیے اس کے نشر کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ بی جے پی کے کارکنان نے کئی ریاستوں میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔
اس دوران حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایک بہت ہی مقبول ترین ویب سریز ‘مرزا پور’ کے خلاف بھی ایک کیس درج کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جس شخص نے کیس درج کروایا ہے، اس کے مطابق اس ویب سیریز سے بھی مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں گزشتہ چند برسوں کے دوران تخلیقی آزادی کے حوالہ سے عدم برداشت میں کافی اضافہ ہوا ہے ورنہ ماضی کی فلموں اور ڈراموں میں سماج کے فرسودہ چلن پر اس سے کہیں زیادہ تنقید ہوتی تھی اور لوگ اسے سراہتے تھے۔ جبکہ اب مودی کے دور میں حال یہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ایسے تخلیقی فن پاروں پر پابندی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔
اس سے قبل بھی کسی نہ کسی اعتراض کے ساتھ فلموں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حالیہ دور میں فلم، اے دل ہے مشکل’ پدماوت، ‘چھپاک، ‘اے سوٹیبل بوائے، ‘پاتال، ‘لیلا اور ‘لپسٹک انڈر برقع’ جیسی فلموں کو مختلف وجوہات کے سبب نشانہ بنایا جا چکا ہے۔