بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے گزشتہ 8 برسوں کی سب سے بڑی ٹیکس کٹوتیاں کی گئی ہیں، جنہیں کاروباری حلقوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام امریکا کے ساتھ جاری تجارتی کشیدگی میں مودی کی شبیہ بہتر بنانے میں مدد دے گا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق 2017 کے بعد سب سے بڑی ٹیکس اصلاحات کے طور پر مودی حکومت نے 16 اگست کو "گُڈ اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی)” کے پیچیدہ نظام میں بڑی تبدیلیوں کا اعلان کیا۔نئے فیصلے کے تحت اکتوبر سے روزمرہ ضروریات کی اشیا اور الیکٹرانکس کی قیمتوں میں کمی ہوگی، جس کا فائدہ صارفین کے ساتھ نیسلے، سام سنگ اور ایل جی جیسی بڑی کمپنیوں کو بھی ملے گا۔یومِ آزادی کی تقریر میں مودی نے عوام سے مقامی مصنوعات کے زیادہ استعمال کی اپیل کی، جو اُن کے حامیوں کی امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی آوازوں سے ہم آہنگ ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 27 اگست سے بھارت کی درآمدات پر ٹیرف 50 فیصد کر دیا ہے۔

ٹیکس کٹوتیاں اگرچہ مہنگی ثابت ہوں گی کیونکہ جی ایس ٹی حکومت کا سب سے بڑا ریونیو سورس ہے۔ آئی ڈی ایف سی فرسٹ بینک کے مطابق اس اقدام سے بھارتی جی ڈی پی اگلے 12 ماہ میں 0.6 فیصد بڑھے گی لیکن ریاستی و وفاقی حکومت کو سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو رشید قدوائی نے کہا کہ یہ اقدام اسٹاک مارکیٹ کو سہارا دینے کے ساتھ بہار کے انتخابات سے قبل مودی کو سیاسی فائدہ بھی پہنچائے گا، کیونکہ جی ایس ٹی میں کمی کے اثرات وسیع پیمانے پر عوام کو ملیں گے، جب کہ انکم ٹیکس کٹوتیاں صرف محدود طبقے کو فائدہ دیتی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت نے 2017 میں جی ایس ٹی نظام نافذ کیا تھا جس کے تحت ریاستی ٹیکسز ختم کرکے پورے ملک میں یکساں ٹیکس پالیسی لائی گئی، تاہم اس پر مختلف شرحوں کی پیچیدگی پر تنقید کی جاتی رہی۔نئے نظام کے مطابق گاڑیوں اور الیکٹرانکس پر عائد 28 فیصد ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے جبکہ تقریباً تمام 12 فیصد شرح والی اشیا کو کم کر کے 5 فیصد کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے، جس سے پیک شدہ غذائی اشیا اور روزمرہ ضروریات کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔

عوامی مسائل کے حل کیلئے ہم سب کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ، مولانا فضل الرحمان

Shares: