مودی سرکار کا سفارتی ساکھ کی بحالی کیلئے بنایا گیا وفد اختلافات کا شکار

2 ہفتے قبل
تحریر کَردَہ
modi

نئی دہلی: بھارت آپریشن سیندور میں ناکامی اور اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزیمت اٹھانے کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لئے سرگرم ہو گیا اس حوالے سے مودی سرکار نے سیاسی رہنماؤں پر مشتمل گروپس تشکیل دے دئیے جو مختلف ممالک کے دورے کریں گے،متعدد سیاسی رہنماؤں نے اس وفد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔

ایک بڑے سفارتی حملے کے ایک حصے کے طور پر، مودی حکومت عالمی فورم پر اگلے ہفتے سے مختلف ممالک میں متعدد آل پارٹیز وفود بھیجے گی،اس مشق کا مقصد پہلگام واقعے کا ہندوستان کے موقف کو پیش کرنا ہے لیکن پاکستان کے ہاتھوں ناکامی کے بعد مودی حکومت نے اپنی عالمی ساکھ بحال کرنے کے لیے مختلف ممالک میں وفود بھیجنے کا منصوبہ بنایا، جو آغاز میں ہی اختلافات کی نذر ہو گیا۔

انڈین میڈیا کاکہنا ہے کہ حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ سمیت سینئر قائدین وفود میں شامل ہیں کچھ سابق وزراء مختلف جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے وفود کی قیادت دنیا بھر کے ممالک میں کریں گے اگرچہ وفود یا ان کے اراکین کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں تھی، لیکن کچھ رہنماؤں نے کہا کہ 30 سے ​​زیادہ اراکین پارلیمنٹ کو آؤٹ ریچ مشق میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

یہ وفود 10 روز کے لیے مختلف ممالک کا دورہ کریں گے۔ ارکان پارلیمنٹ مختلف ممالک کا دورہ کریں گے، جیسا کہ حکومت نے مختص کیا ہے وزارت خارجہ (ایم ای اے) ارکان پارلیمنٹ کو روانگی سے قبل بریف کرے گی، جن جماعتوں کے ممبران پارلیمنٹ وفد کا حصہ ہوں گے ان میں بی جے پی، کانگریس، ٹی ایم سی، ڈی ایم کے، این سی پی (ایس پی)، جے ڈی یو، بی جے ڈی، شیو سینا (یو بی ٹی)، سی پی آئی (ایم) اور کچھ دیگر شامل ہیں۔

سابق مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور اوڈیشہ سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ اپراجیتا سارنگی حکمران پارٹی کے ارکان میں شامل ہیں جو وفد کا حصہ بنیں گے سابق مرکزی وزراء روی شنکر پرساد اور راجیو پرتاپ روڈی، بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ سمک بھٹاچاریہ اور برج لال کے بھی وفد میں شامل ہونے کی امید ہے۔

حکومت کی فہرست میں شامل کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ میں ششی تھرور، منیش تیواری، سلمان خورشید اور امر سنگھ شامل ہیں اور پارٹی نے تصدیق کی ہے کہ وہ وفود کا حصہ ہوں گے۔ ٹی ایم سی کے سدیپ بندیوپادھیائے، جے ڈی یو کے سنجے جھا، بی جے ڈی کے سسمیت پاترا، سی پی آئی (ایم) کے جان برٹاس، شیو سینا (یو بی ٹی) کی پرینکا چترویدی، این سی پی (ایس پی) کی سپریا سولے، ڈی ایم کے کے کے کنیموزی، اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی اور تائیس جیتنے والے بھی شامل ہیں۔

جبکہ سابق وزیر خارجہ خورشید سے کہا گیا ہے کہ وہ سات ممبران پارلیمنٹ کے وفد کی قیادت کریں جو جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جنوبی کوریا، جاپان اور سنگاپور جیسے ممالک پر محیط ہے، بارامتی کے رکن پارلیمنٹ سولے مشرق وسطیٰ اور افریقہ بشمول عمان، مصر، کینیا اور جنوبی افریقہ کے وفد کی قیادت کریں گے، کانگریس لیڈر تیواری یورپ یا مشرق وسطیٰ جانے والے وفد کی قیادت کر سکتے ہیں ، تھرور ممکنہ طور پر امریکہ میں ایک وفد کی قیادت کریں گے۔

جہاں ٹھاکر اس وفد کا حصہ ہوں گے جو مشرق وسطیٰ اور افریقہ کا دورہ کرے گا، ان کے ساتھی سارنگی جنوب مشرقی ایشیا کے وفد کا حصہ ہوں گے۔ ساہنی بھی اس وفد کا حصہ ہوں گے شیوسینا (یو بی ٹی) کے رکن پارلیمنٹ چترویدی سعودی عرب، الجزائر، کویت اور بحرین کے وفد کا حصہ ہوں گے۔ اس وفد میں کانگریس کے امر سنگھ بھی شامل ہوں گےسابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کے ایک وفد میں شامل ہونے کا امکان ہے ہر وفد کے سات سے آٹھ ارکان ہونے کا امکان ہے اور وہ چار سے پانچ ممالک کا دورہ کر سکتا ہے-

india

لیکن پاکستان سے سفارتی اور فوجی محاذ پر ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت کی سفارتی سطح پر ساکھ بحال کرنے کی کوشش بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

معروف عالمی جریدے ’ٹیلیhttps://www.telegraphindia.com/india/shashi-tharoor-thrust-on-terror-modi-government-pick-triggers-bjp-congress-jousting-prnt/cid/2100422 گراف‘ کی رپورٹ کے مطابق مودی کی جانب سے سفارتی سطح پر ساکھ بحال کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے وفد پر بھی بھارت میں اختلافات سامنے آگئے ہیں بھارت میں سفارتی وفد کے سربراہ کے بیانات نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن جماعت کانگریس میں لفظی جنگ چھیڑ دی ہے۔

وفد کے اراکین خود مودی سرکار پرشدید تنقید کر رہے ہیں، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سوال اٹھایا گیا ہے کہ وفد میں تمام جماعتوں کی نمائندگی کیوں نہیں؟متعدد سیاسی رہنماؤں نے اس وفد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔

اپوزیشن رہنما سنجے راوت کے مطابق مودی سرکار سفارتی کمیٹی سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے بھیجے گئے نام بھی مودی سرکار نے مسترد کر دیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ششی تھرور نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ مرکزی حکومت نے مجھ سے وفد کی قیادت کرنے کے لیے میری رضامندی طلب کی تھی، میں نے فخر سے جواب دیا ’ہاں‘، میں پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کا سربراہ بھی ہوں یہ تنازع بی جے پی حکومت اور کانگریس کے درمیان ہے، پارلیمانی امور کے وزیر نے مجھے فون کیا تھا، میں نے اپنی پارٹی کو ان کی دعوت کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔

کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے بی جے پی کی جانب سے ششی تھرور کے انتخاب کو ’باڈی لائن‘ سے تشبیہ دی، جو (33-1932 کی ایشز سیریز کے دوران انگلش فاسٹ باؤلرز کا آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کو نشانہ بنانے کا متنازع طریقہ) ہے، تاہم انہوں نے تھرور کے خلاف ممکنہ تادیبی کارروائی سے متعلق سوال کو نظرانداز کر دیا۔

ششی تھرور نے وزیراعظم نریندر مودی کی آپریشن سندور اور پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی تعریف کرکے اپنی پارٹی کو ناراض کر دیا ہے۔

جب پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے 7 وفود کے سربراہان کے ناموں کا اعلان کیا تو تھرور کا نام سرفہرست تھا، باقی 6 میں سے 2 (ارکان پارلیمنٹ) حزب اختلاف سے تھے۔

وفد کے 6 ارکان میں روی شنکر پرساد (بی جے پی)، بایجیانت پانڈے (بی جے پی)، سنجے کمار جھا (جے ڈی یو)، کنی موزی کروناندھی (ڈی ایم کے)، سپریا سولے (این سی پی۔ایس پی) اور شری کانت ایکناتھ شنڈے (شیو سینا) شامل تھے۔

حکومت نے ابھی دیگر وفود کے اراکین کے ناموں کا اعلان نہیں کیا، لیکن کہا ہے کہ ہر وفد میں مختلف جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ، ممتاز سیاسی شخصیات اور نمایاں سفارت کار شامل ہوں گے تھرور کی تقرری بطور سربراہ اس کے باوجود ہوئی کہ کانگریس نے ان کا نام نامزد نہیں کیا تھا۔

حکومت نے گزشتہ جمعے کو کانگریس سے کہا تھا کہ وہ اپنے 4 اراکین پارلیمنٹ کو وفود کا حصہ بنانے کے لیے نامزد کرے، کانگریس نے سابق وزیر آنند شرما، لوک سبھا میں ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی، ارکان پارلیمنٹ سید نصیر حسین اور راجا برار کے نام دیے تھے۔

حکومت نے کانگریس کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن بی جے پی کے سوشل میڈیا سربراہ امیت مالویا نے راہول گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے مداخلت کی، انہوں نے ’ایکس‘ پر ششی تھرور کی فصاحت کی تعریف کی اور سوال اٹھایا کہ ان کی پارٹی نے انہیں نامزد کیوں نہیں کیا؟

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ششی تھرور کی فصاحت، اقوام متحدہ کے عہدیدار کے طور پر ان کے طویل تجربے، اور خارجہ پالیسی پر ان کی گہری بصیرت سے انکار نہیں کر سکتاتو پھر کانگریس پارٹی خاص طور پر راہول گاندھی نے انہیں کثیر الجماعتی وفود کے لیے نامزد کیوں نہیں کیا؟کیا یہ عدمِ تحفظ ہے؟ حسد ہے؟ یا پھر ’ہائی کمانڈ‘ سے بہتر نظر آنے والوں کے لیے عدم برداشت؟

مالویا نے کانگریس کے دو نامزد اراکین راجیہ سبھا کے ایم پی حسین اور لوک سبھا کے ایم پی گوگوئی کی اہلیت پر بھی سوال اٹھایا کہ کیا وہ پاکستان سے متعلق معاملات پر بھارت کی نمائندگی کرنے کے قابل ہیں؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سید نصیر حسین کے حامیوں نے ان کی راجیا سبھا میں جیت کے موقع پر کرناٹک اسمبلی کے اندر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے تھے انہوں نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے اس الزام کا بھی حوالہ دیا کہ گوگوئی نے اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان میں 15 دن گزارے تھے ہیمنت سرما نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے راہول گاندھی سے مطالبہ کیا کہ وہ گوگوئی کا نام فہرست سے نکال دیں۔

Latest from بین الاقوامی