پاکستان کے خلاف افغانستان استعمال کرنے کی مودی سرکار کی ناکام کوشش
تحریر: نصیب شاہ شینواری
افغانستان کے حزبِ اسلامی کے رہنما انجینئر گلبدین حکمتیار کے ایک بیان کو "افغانستان انٹرنیشنل پشتو” کے ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔بیان کے مطابق حکمتیار کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اپنے پڑوس میں ایک خودمختار اور طاقتور بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان برداشت نہیں کر سکتا، تو وہ ایک خودمختار اور طاقتور افغانستان کو کیسے برداشت کرے گا، جس نے دہلی پر کئی صدیوں تک حکومت کی ہے؟
حکمتیار کے اس بیان میں افغان حکومت کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے پاکستان یا دیگر پڑوسی ممالک کے خلاف بلا اشتعال جارحیت کی کھل کر مخالفت کرے۔اگر افغانستان کھل کر بھارتی جارحیت کی مذمت کرتا ہے تو اس سے وہ پڑوسی ممالک کے دل جیت سکتا ہے اور بھارت کو سفارتی سطح پر شکست دے سکتا ہے۔
مضبوط اور خودمختار افغانستان کے لیے ضروری ہے کہ افغان سیاسی رہنما آپس میں متحد ہوں، ایسا نہ ہو کہ 70 کی دہائی کی طرح افغانستان میں سیاسی رہنماؤں کے درمیان ذاتی تعصب اتنا پروان چڑھے کہ وہ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو قتل کریں، بالکل اسی طرح جیسے افغانستان میں ہوا تھا، جس کا فائدہ پھر روس نے اٹھایا اور دس سال تک افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی، لاکھوں بے گناہ افغان شہریوں کو شہید کیا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں افغان شہریوں نے پاکستان ہجرت کی۔
روس انقلاب میں، پڑوسی ایران کے برعکس، پاکستان میں افغان مہاجرین کو مکمل آزادی حاصل تھی اور افغان مہاجرین نے پاکستان آتے ہی پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں اپنا کاروبار اور ان کے بچوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
ایسی صورت حال میں، جب مودی سرکار نے 22 اپریل کو پہلگام کا جعلی ڈرامہ رچایا اور عالمی سطح پر پاکستان کو اس دہشت گردی کے واقعے میں ملوث کرنے کی کوشش کی، لیکن مودی سرکار کے اس جھوٹے پروپیگنڈے سے پاکستان بدنام نہ ہو سکا۔ اگرچہ حال ہی میں افغان حکومت نے پہلگام واقعے کی مذمت کی، لیکن پاکستان پر بلا اشتعال بھارت کی جارحیت کی افغان حکومت نے مذمت تک نہ کی اور ایسا متنازعہ بیان جاری کیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے خوشگوار تعلقات ایک دفعہ پھر خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اس صورت حال میں، جس افغان حکومت نے پہلگام واقعے کی مذمت کی، بالکل اسی طرح افغان حکومت کو چاہیے تھا کہ پاکستان پر انڈیا کے بلا اشتعال حملے کی بھی بھرپور مذمت کرتی اور بھارت کو اس جارحیت سے روکتی۔ اس لیے کہ جب افغانستان کا پڑوسی ایٹمی ملک پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہوں اور وہ دیگر سازشی ممالک کے اشاروں پر نہ چلے، تب جا کر پاکستان جیسے نیوکلیئر طاقت رکھنے والے ملک دوسرے سازشی عناصر کو شکست فاش دے سکتے ہیں۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی اور حالیہ جنگی محاذ پر بھی بھارت کو شکست دی ہے، لیکن بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور 7 مئی سے 12 مئی تک جنگ کے دوران بھارت شکست کھانے کے باوجود، مودی سرکار کے نمائندے ایسے بیانات جاری کرتے ہیں جن سے سازش اور جنگ کی بو آتی ہے۔
ایسی صورت حال میں، اگر بھارت کو فضائی یا زمینی فوجی قوت میں برتری حاصل ہے تو پاکستانی بری، فضائیہ اور بحریہ کی فوج کی مثال بھی نہیں ہے۔ نیوکلیئر طاقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی افواج اور قوم میں ایمان و جہاد کا جذبہ ہے اور تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کم تعداد اور وسائل کے باوجود، زیادہ تعداد اور وسائل رکھنے والے مخالفین کو شکست دی ہے۔
پاکستان بطور مضبوط نیوکلیئر پاور کا عملی مظاہرہ دنیا نے 10 مئی کی فجر کی نماز کے بعد دیکھا جب پاکستانی فضائیہ کے شاہینوں نے بھارتی حدود میں گھس کر دشمن کو دندان شکن شکست دی۔ پاکستانی شاہینوں نے 6 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جن میں تین فرانس ساختہ رافیل طیارے بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے شاہینوں کی طرف سے بھارت کے طیارے گرانے کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بھی کی اور اب تو پاکستانی فضائیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے دشمن کے 7 طیارے مار گرائے ہیں اور اس شکست کی وجہ سے مودی سرکار نے ایک بھوکے کتے کی طرح بھونکنا شروع کیا ہے۔
جنگ کے دنوں میں پاکستان کے آہنی وار نے انڈیا کی خاتون فوجی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور ان دنوں اس خاتون فوجی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ انڈیا کبھی بھی پاکستان کے ساتھ جنگ اور جارحیت نہیں چاہتا، جس سے ثابت ہوا کہ پاکستانی شاہینوں نے مودی سرکار کو سیزفائر کے لیے آمادہ کیا۔
بھارت کی بین الاقوامی منافقت اور سازش کو دیکھیں کہ جب سے پاک-انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، تو بھارت پاکستان کے مسلمان ہمسایہ افغانستان کے ساتھ نزدیکی بڑھانے کی کوشش کرتا آ رہا ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، حالانکہ بات ایسی نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ روس انقلاب ہو یا روس انقلاب کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی، پاکستان نے ہر وقت افغان حکومت اور افغان بھائیوں کے لیے بارڈر کھلا رکھا ہے۔
اب تو مودی سرکار ایسی سازشوں پر اُتر آئی ہے کہ افغانستان میں بھی ڈیم بنانے کے منصوبوں پر افغان حکومت کے ساتھ پلان شروع کیا تاکہ افغانستان سے نکلنے والے دریاؤں کا پانی پاکستان کے لیے روکا جا سکے۔
ایسی صورت حال میں افغانستان کی موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ گلبدین حکمتیار کے بیان کے عین مطابق بھارتی سازش کا حصہ نہ بنے، اس لیے کہ حکمتیار نے پہلے ہی کہا ہے کہ انڈیا جب پڑوس میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان اور بنگلہ دیش برداشت نہیں کر سکتا، تو بھارت ایک آزاد، مضبوط اور خودمختار افغانستان کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟