مبصرین اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی حکومت کی سرپرستی میں ہندوتوا ایجنڈے کو تقویت مل رہی ہے، جس کے نتیجے میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور سماجی و سیاسی طور پر انہیں کنارے لگانے کی منظم کوششیں نظر آتی ہیں۔ ناقدین کا کہناہے کہ یہ پالیسیز اور بیانیے بھارت کو ایک ایسے قومی خدوخال کی طرف لے جا رہے ہیں جو شہریوں کو طبقاتی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے۔

کئی ہندو انتہا پسند رہنماؤں کی خبروں اور بیانات میں بھی ایسے اشارے ملے ہیں جنھیں ناقدین ریاستی سرپرستی میں نفرت انگیز مہم کا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔ہندو انتہا پسند رہنماء ہنت راجو داس نے دعویٰ کیا کہ وہ دہلی سے پیدل مارچ کا آغاز کریں گے تاکہ ’’ہندو راشٹر‘‘ کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔ اسی طرح سوامی رام بھدر اچاریہ اور مہانت رام چندر گیری جیسے رہنماؤں کے بیانات میں مسلم آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنانے اور انہیں الگ تناظر میں دیکھنے کے خیالات سامنے آئے ہیں۔

ماہرینِ سیاست اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ایسی تقاریر اور اقدامات اقلیتی کمیونٹیز کو دوسرے درجے کے شہری بنانے کے درپے ہیں اور اس سلسلے میں ریاستی اداروں کا رویّہ تشویش کا باعث ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بعض سرکاری اور نیم سرکاری ادارے نہ صرف اس نظریے کو نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ بعض مواقع پر اس بیانیے کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں ، جسے متعدد مبصرین "منظم امتیاز” اور "ریاستی دہشت گردی” سے تعبیر کر رہے ہیں۔

Shares: