بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دیوالی کے موقع پر طیارہ بردار بحری جنگی جہاز آئی این ایس وکرانت پر خطاب پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ مودی کے خطاب کا مقصد آپریشن سندور کی ناکامیوں اور بھارت کی دفاعی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا تھا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق آزادانہ اعداد و شمار اور دفاعی تجزیے مودی کے "بحری طاقت” کے دعوؤں اور بھارت کی حقیقی دفاعی تیاری کے درمیان واضح تضادات کو بے نقاب کرتے ہیں ، جس سے عالمی برادری کے سامنے بھارت کی ساکھ مزید کمزور ہو رہی ہے۔ مودی کا بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا دفاعی برآمد کنندہ بنانے کا دعویٰ زمینی حقائق سے متصادم ہے۔2024-25ء میں بھارت کی دفاعی برآمدات محض 2.1 بلین ڈالر تھیں جبکہ درآمدات 13.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج میں اب بھی چھوٹے ہتھیاروں ، ٹینکوں اور توپ خانے کی شدید کمی ہے ، جبکہ بحریہ پر 230 ارب روپے کے منصوبے آئی این ایس وکرانت کو ترجیح دی گئی ، جسے ناقدین نے سفید ہاتھی قرار دیا ہے۔مودی کا یہ دعویٰ کہ آپریشن سندور میں بھارت نے دشمن کو شکست دی ، آزاد عالمی اداروں جیسے SIPRI اور Janes Defence کی رپورٹس کے مطابق غلط ہے۔ ان کے مطابق بھارت نہ تو لائن آف کنٹرول پر کوئی فیصلہ کن فتح حاصل کی ا ور نہ ہی آئی این ایس وکرانت نے کوئی جنگی مشن انجام دیا۔
دفاعی تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی افواج کو سیاسی بیانیے کا حصہ بنانا اور ہندوتوا نظریات کو مسلح اداروں میں داخل کرنا ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔اگرچہ آئی این ایس وکرانت کو "آتم نربھر بھارت” کی علامت قرار دیا گیاہے، مگر رپورٹ کے مطابق اس کے 40 فیصد سے زائد پرزے درآمد شدہ ہیں اور یہ منصوبہ 8 سال تاخیر اور 50 فیصد زائد لاگت سے مکمل کیا گیا ہے ۔بھارت کی سکیورٹی کی مجموعی صورتحال تشویشناک ہے۔ گزشتہ سال ماؤنواز گوریلوں کے حملوں کے 21 سو سے زائد واقعات پیش آئے جبکہ مقبوضہ کشمیر ، لداخ اور پنجاب میں آزادی کی تحریکیں اب بھی ریاستی کنٹرول کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ، مودی کی تقاریر بیرون ملک طاقت کا تاثر دینے اور اندرون ملک اختلاف رائے دبانے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے ۔تجزیہ کاروں کے مطابق آئی این ایس وکرانت پر نریندر مودی کا خطاب حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی پروپیگنڈا اور بھارت کی داخلی اور خارجی کمزوریوں کو چھپانے کی ایک علامتی کوشش تھی۔








