جیسے جیسے بھارت میں کرونا شور زراکم ہورہا ہے تو مودی نے پھر دوبارہ وہ ہی پرانا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے ۔ وہ ہی حربے ، وہی پرانے طریقہ واردات اور وہ ہی اپنی اوقات دیکھانا شروع کر دی ہے ۔ مودی ایک بار پھر پاکستان مخالف ، چین مخالف اور کشمیر مخالف جذبات کو ابھارنے کا گھناونا کھیل شروع کردیا ہے تاکہ بھارتی عوام کو پھر اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے کہ ان کی نظر مودی کی کرونا پر نااہلی ، لداخ اور کشمیر ، جو اس نے بھارت کا معاشی بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔ اس پر نہ جائے ۔
۔ یوں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فضائیہ کے مرکز پر ڈرون حملوں کا الزام بھارتی تجزیہ کاروں نے پاکستان پر عائد کر دیا ہے ۔ اور ایک بار پھر بھارت کی جانب سے war mongering
جاری ہے ۔ حالانکہ جو حقائق ہیں وہ واضح اشارہ ہیں کہ یہ کام کسی اندر کے بندے جیسے RAWکا ایک نیا رچایا ہوا ڈرامہ ہے بلکل پلوامہ جیسا جس کا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا تھا ۔ اور اس کا بھی ملبہ بھی پاکستان پر ڈالنے کی کوشش جاری ہے ۔ ساتھ ہی اس واقعہ کی آڑ میں مودی اور بھارت بڑی بڑی ڈیلیں کرنے کے درپے پر بھی ہے ۔ ۔ حالانکہ جو سوال بنتا تھا کہ مودی جی جنہوں نے بھارتی فضائیہ کو رافیل سے لے کر پتہ نہیں کون کون سے سسٹم اور ریڈار ۔۔۔ غریب بھارتیوں کے پیسے خرچ کر لا کر دیے ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے ۔ آخری کیسے بھارتی فضائیہ کے اڈے پر ڈرون حملے ہو گئے ۔ کیا سب بھنگ پی کر سوئے ہوئے تھے ۔ اور RAW کیا کر رہی تھی ۔ دراصل یہ وہ ہی معاملہ ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ ماضی کی طرح ان حملوں کا الزام پاکستان پر اس لیے عائد کیا جا رہا ہے کہ ایک جانب چین ، لداخ اور کشمیر کے معاملات مودی سے بالکل کنڑول نہیں ہو پارہے ہیں تو دوسری جانب کرونا پر خراب کارکردگی اور معیشت کا مودی نے جنازہ نکال دیا ہے ۔
۔ دراصل مقبوضہ کشمیر کے جموں ائیر بیس پر پانچ منٹ کے وقفے سے ہونے والے دو زور دار دھماکے اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے ہتھکنڈوں کے آگے جھکنے والے نہیں۔۔ ایک دھماکے سے بھارتی فضائیہ کے اڈے کی عمارت کی چھت اڑ گئی جبکہ دوسرا دھماکہ کھلی جگہ پر ہوا۔ دھماکوں سے پورا علاقہ لرز اٹھا اور ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ پورے جموں ڈویژن میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ حیران کن چیز یہ ہے کہ دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب ائیر فورس اسٹیشن پر اعلیٰ سطحی اجلاس ہو رہا تھا۔
۔ حریت پسندوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن مقبوضہ کشمیر پولیس چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ فضائیہ کے اڈے پر بم گرانے کیلئے ڈرون استعمال کئے گئے۔ دھماکوں کے شبہے میں دو افراد گرفتار کر لئے گئے ہیں ۔ سرکاری طور پر اگرچہ بتایا گیا ہے کہ واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، صرف دو اہلکار زخمی ہوئے لیکن دھماکوں کے فوری بعد ایک سے زائد ایمبولینسوں کو جائے وقوعہ کے اندر داخل ہوتے دیکھا گیا جس سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ کافی جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں جنہیں چھپایا جا رہا ہے۔ قیاس آرائیوں کی بڑی وجہ میڈیا کو جائے وقوعہ میں داخلے اور رپورٹنگ کی اجازت نہ دینا ہے۔ جس سے یہ شبہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ یہ بھارت کی اپنی ایجنسیوں کی کارستانی بھی ہوسکتی ہے ۔
۔ بھارتی اخباروں میں شائع اور ٹی وی چینلز میں جو کچھ نشر ہو رہا ہے وہ صرف ائیر فورس اور پولیس کے دعوئوں پر مبنی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ پہلا ڈرون حملہ تھا ۔ پولیس کا مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ کشمیری مجاہدین بارودی مواد کی منتقلی کیلئے ڈرونز کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ دوسری جانب جموں شہرکے علاقے کالوچک میں فوجی مرکز کے قریب مزید دو ڈرونز آئے جن پر بھارتی فوجیوں نے گولیاں چلائیں اور اسکے بعد وہ ڈرون واپس چلے گئے، یہ واقعہ بھارتی فضایئہ کے مرکز پر ڈرون حملوں کے ایک روز بعد پیش آیا ۔ دھماکوں کی اہمیت اس بنا پر اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ چند روز قبل ہی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت نواز کشمیری رہنمائوں کی کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی جس کا مقصد مقبوضہ علاقے میں نام نہاد انتخابات اور حلقہ بندیوں کے حق میں ان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ جس میں مودی مکمل ناکام رہا ہے ۔
۔ سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حقیقی سیاسی قیادت عرصہ دراز سے بھارتی جیلوں میں قید اپنی بے گناہی کی سزا بھگت رہی ہے۔ ان لوگوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنا حق خود ارادیت اور آزادی مانگتے ہیں۔ اس جرم میں اب تک نہ صرف 80ہزار سے زائد کشمیری نوجوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اپنے سیاسی قائدین کی طرح بھارتی قید و بند کی صعوبتیں ایک طویل عرصے سے برداشت کر رہے ہیں اور جو کشمیری قید نہیں ہیں وہ دنیا کے طویل ترین محاصرے میں ہیں۔ جس کو بھی سات سو روز گزر چکے ہیں بلکہ اب تو اس محاصرے کو دوسال مکمل ہونے والے ہیں ۔
۔ یہاں میں اپنے ان بعض نادان دوستوں کا بھی ذکر کردوں جو یہ توقع کر رہے تھے کہ مودی نے جو کشمیریوں کا اجلاس بلایا تھا اس میں اور کچھ نہیں تو کم از کم مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تو بحال کر دی جائے گی لیکن اس اجلاس میں نہ تو حقیقی کشمیری سیاسی قیادت کو جیلوں سے رہا کرکے مدعو کیا گیا نہ ہی کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی پر بات کی گئی۔ اس طرح یہ بے معنی اجلاس بھی ایک ڈرامہ اور گونگلوں سے مٹی جھاڑنا ہی ثابت ہوا۔۔ اس اجلاس میں مدعو کئے گئے چند معروف کشمیری قائدین نے بھی مودی سرکار کو ٹھینگا دکھایا۔ یوں یہ بے معنی اجلاس بے مقصد انجام سے دوچار ہوا جو مودی سرکار کی ناکامی کا باعث بنا۔۔ اب بھارتی تحقیقاتی اداروں کی جھوٹی تحقیق یہ ہے کہ پاکستان ڈرون کو جموں کشمیر میں کئی عرصے سے استعمال کر رہا ہے۔ ۔ چلیں اگر یہ مان بھی لیں کہ ڈرون پاکستان کی طرف سے آئے تھے تو کنڑول لائن کے پاس تو بات سمجھ آتی ہے ۔ یہ اتنی دور جموں میں ڈرون کیسے پہنچے ۔ یہ سوال بھارت میں کوئی بھی حکومت اور فضائیہ سے نہیں پوچھ رہا ہے ۔ ۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کو اس میں بھی آئی ایس آئی دیکھائی دے رہی ہے ۔ دراصل اس سب الزام تراشی کی وجہ ہے ۔ اب اسکا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر ، بھارتیوں کو خوف میں مبتلا کرکے ۔ بھارت اینٹی ڈرون سسٹم نصب کرنے کی تیاری میں ہے ۔ ۔ بھارتی خبر رساں ادارے نے تو دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ بھارت نے اینٹی ڈرون سسٹم پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ کئی فوجی تنصیبات میں اینٹی ڈرون سسٹم نصب کیا جا چکا ہے۔ بھارت نے لال قلعہ پر ڈرون حملے کے خدشے کے پیش نظر پہلی بار اینٹی ڈرون سسٹم نصب کیا تھا۔ جس کا نامlaser based directed energy weaponتھا ۔ یہ سسٹم کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ڈرون کو لیزربم کے ذریعہ گرا سکتا ہے ۔ ایک اور سسٹم ہے جو کہ DRDO کے لگاتار ٹرائل پر ہے کہ کیسے microwave کے ذریعہ ڈرون کو گرایا جاسکے ۔ اس کو jaming system بھی کہا جاتا ہے ۔
۔ بھارت کے سی ڈی ایس بپن راوت بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ مستقبل کی جنگ کے لئے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ بھارت نے اس ضمن میں تینوں افواج کے اہم اڈوں پر اینٹی ڈرون سسٹم نصب کرنے کی تیاریاں تیز کر دی ہیں۔ اسکے لئے بھارت نے اسرائیل سے بھی مدد لی ہے اور بھارتی بحریہ نے چھوٹے ڈرون سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کو اینٹی ڈرون سسٹم کا 2000 سے زائد کا آرڈر کیاہے یہ اینٹی ڈرون سسٹم computerized ہے۔ اسکو بندوق کے اوپر بھی لگایا جا سکتا ہے اور کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ڈرون کو اس سسٹم سے فضا میں ہی تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ۔ حقائق یہ ہیں کہ بھارت میں کورونا نے جس طرح تباہی مچائی ۔ دنیا بھر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔اور مودی کی اس ضمن میں کارکردگی جو رہی وہ بھی پوری دنیا نے دیکھ لی ہے کہ لاشیں جلانے کے لئے نہ شمشان گھاٹوں میں جگہ ملتی تھی نہ ان کی چتائوں کو جلانے کے لئے لکڑیاں دستیاب تھیں۔ دہلی، کلکتہ، ممبئی، امرتسر، چندی گڑھ، میزو رام، حیدرآباد سمیت اترپردیش اور راجستھان میں مودی سرکار کی ناکامی کا یہ عالم رہا کہ کورونا ویکسین تو کیا متاثرین کو آکسیجن تک میسر نہیں تھی۔
۔ لاکھوں بھارتی باشندے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر آکسیجن کی قلت کی وجہ سے ایڑیاں رگڑتے ہوئے ہلاک ہوتے رہے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود جھوٹا بھارتی میڈیا بھی مودی سرکار کی اس تاریخی ناکامی پر پردہ نہیں ڈال سکا۔۔ چین کے ساتھ تنازع میں بھی بھارت کو لینے کے دینے پڑے اور مار الگ سے کھائی۔ پاکستان کے ساتھ پنجہ لڑانے کی کوشش بھی بھارتی ناکامی پر ختم ہوئی۔ اگر پاکستان اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتا تو بھارت ابھی نندن کو آزاد کرانے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا جو پاکستان پر حملہ کرنے اور نقصان پہنچانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس حماقت میں بھی بھارت کا منہ کالا ہوا۔ ۔ بھارتی معیشت مودی حکومت میں زوال پذیر ہے اور تجارتی گراف مسلسل نیچے گر رہا ہے۔ معیشت کی تباہی و بدحالی بھی مودی سرکار کی ایک اور بدترین ناکامی ہے۔۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری رہنمائوں کی جانب سے بھارت کو ٹکا سا جواب ملنے پر جموں دھماکوں کے ایک اور رخ کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی طرف اشارہ پاکستان کے عسکری ذرائع نے بھی کیا ہے۔ جس میں جموں دھماکوں کو بھارتی حکومت کا پلوامہ ۔ twoڈرامہ قرار دیا ہے۔ ان کا خدشہ بالکل درست ہے کیونکہ بھارت اس واقعے میں پاکستان کو ملوث کر کے وہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جنہیں وہ پلوامہ حملے کے ڈرامے کے بعد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔
۔ پھر افغانستان کی بگڑتی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر بھی وہ پاکستان کے خلاف جو امریکہ کو طالبان کے خلاف کاروائی کے لئے اڈے نہ دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ کوئی نیا محاذ کھول سکتا ہے اس پس منظر میں جموں دھماکے دور رس اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ۔ کہا جاتا ہے کہ دشمن بھی اعلیٰ ظرف ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے بھارت ایسا نہیں بلکہ دوسری طرح کا پڑوسی اورمخالف ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بھارت کو جب بھی اندرونی یا بین الاقوامی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اسی طرح کا کوئی ڈرامہ رچا کر الزام پاکستان پر اس لئے عائد کرتا ہےتاکہ اس ناکامی سے دنیا اور بھارتی عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔