ستیہ پال ملک کی طرف سے پلوامہ پر بیان، بھارت میں ہنگامہ خیزی میں اضافہ، مودی پر اٹھے سوال
لاہور(خالدمحمودخالد)بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی گورنر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ رکن ستیہ پال ملک کی طرف سے14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملے میں 40 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے وزیراعظم مودی کے خلاف بیان نے بھارت میں ہنگامہ خیزی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ستیہ پال ملک کے انٹرویو کا بھارت کے بڑے میڈیا ہاوس اور ٹی وی چینلز نے بھارتی حکومت کے زبانی احکامات پر بلیک آوٹ تو کردیا لیکن اپوزیشن جماعت کانگریس سے ہمدردی رکھنے والے اہم اور بڑے اینکرز نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر مودی کے خلاف جو پروگرام نشر کئے ہیں ان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ مودی کے جھوٹ کا بھانڈہ پھوٹنے والا ہے۔ مودی سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ستیہ پال کو بطور گورنر خاموش رہنے کا کیوں کہا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سینٹرل ریزرو فورس کے قافلے کے لئے پانچ ہیلی کاپٹر کیوں نہیں دیئے۔ ستیہ پال ملک کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت ہیلی کاپٹر فراہم کر دیئے جاتے تو پلوامہ حملہ روکا جاسکتا تھا۔ ایک سینیئر اینکر رویش کمار کا کہنا ہے کہ ستیہ پال ملک کا انٹرویو مودی کو پسند نہیں آیا ان کی ناراضگی صاف دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے اس حوالے سے بحث بڑے ٹی وی چینلز پر روک دی گئی لیکن مودی اس بحث کو غیرملکی نشریاتی اداروں پر کیسے روک سکیں گے۔ رویش کمار نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا اور کہا کہ پلوامہ حملے کے کئی گھنٹے بعد تک مودی کیا کر رہے تھے اور اس حوالے سے کئی اہم سوالوں کے جواب اب تک کیوں نہیں مل سکے۔ ستیہ پال ملک یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ2700 فوجی جوانوں پر مشتمل 78 فوجی گاڑیوں کا اتنا بڑا قافلہ وزیر داخلہ کی طرف سے ہیلی کاپٹر فراہم نہ کرنے کی وجہ سے بذریعہ سڑک جارہا تھا جب اس پر حملہ کیا گیا جب کہ سڑک کو عام ٹریفک کے لئے بند بھی نہ کیا گیا۔ ستیہ پال ملک نے مزید کہا کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ پلوامہ واقعہ کے وقت مودی ریاست اترکھنڈ کے معروف جم کوربیٹ نیشنل پارک میں ڈسکوری چینل کے لئے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کروا رہے تھے۔ ان کو کئی بار فون کیا گیا لیکن ان کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ریکارڈنگ سے فارغ ہو کر مودی نے کئی گھنٹے بعد انہیں ایک ڈھابے سےفون کر کے پوچھا کہ اصل واقعہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہماری غلطی سےیہ سب کچھ ہوا۔ اگر ہم فوجیوں کو ہیلی کاپٹر دے دیتے تو کچھ نہ ہوتا، اس پر مودی نے کہا کہ تم چپ رہو۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بھی کہا کہ ملک تم تو میرے کلاس فیلو ہو، سچائی مت سامنے لانا اور خاموش رہنا۔ ستیہ پال نے اعتراف کیا کہ ڈوول نے انہیں کہا کہ ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈالنی ہے اس لئے تم کوئی بات نہ کرنا۔ رویش کمار نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ستیہ پال ملک نے کہا کہ مودی نے ڈھابے سے فون کیا لیکن یہ بات ہضم نہیں ہورہی کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی ایٹمی طاقت بھارت کے وزیراعظم جہاں ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کروا رہے تھے وہاں فون نہ ہو۔ بھارت کا کون سا کونا ایسا ہے جہاں فون کی سہولت نہ ہو۔ ایسا ممکن نہیں کہ مودی بغیر فون کے نیشنل پارک چلے گئے اور انہیں جانا بھی نہیں چاہیئے۔ مان لیا کہ پروگرام کی ریکارڈنگ کی وجہ سے مودی کے پاس فون نہیں تھا تو ان کے ساتھ چلنے والے ان کے عملے کے فون کہاں تھے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کی تحقیق کیوں نہیں ہوئی کہ مودی نے پلوامہ حملے کے بعد کتنی دیر کے بعد ستیہ پال ملک کو فون کیا۔ ان کے فون کی کال تفصیل نکال کر سچائی کو سامنے لانا ہوگا۔ اسی دن مودی نے اتراکھنڈ میں ایک انتخابی ریلی سے فون پر خطاب کیا۔ پلوامہ میں حملہ تین بجے کے قریب ہوچکا تھا تو مودی نے پہلے ریلی سے خطاب کیا یا ستیہ پال ملک کو۔ اس کی مکمل تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ کال تفصیل سے یہ بات سامنے آجائے گی کہ پلوامہ حملے کی اطلاع مودی کو کتنے بجے دی گئی اور کس کے فون سے دی گئی۔ ڈسکوری چینل کے اینکر بیئر گرل کا فون اس وقت کہاں تھا، کیا اس کے فون پر سگنل آرہے تھا۔ اس کی تحقیقات کر کے ثبوت مل سکتے ہیں اگر یہ ثبوت مٹا نہ دیئے گئے ہوں تو۔ 14 فروری 2019 کے ٹی وی پروگرامز اور اخبارات کو سامنے رکھیں تو صاف بات سامنے آتی ہے کہ گورنر ستیہ پال ملک نے وہی باتیں کیں جو وہ آج کررہے ہیں۔ان کی تمام باتوں میں کافی وزن ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ آخر ستیہ پال ملک کو خاموش رہنے پر کیوں مجبور کیا گیا اور پھر تھوڑے عرصے کے بعد ان کا کشمیر سے تبادلہ کر دیا گیا۔ ستیہ پال نے انٹرویوز میں بتایا تھا کہ کشمیر انتظامیہ نے دہشت گردی کے ممکنہ حملے کی پہلے ہی اطلاع کر دی تھی اور کہا تھا کہ 300 کلوگرام دھماکہ خیز مواد لے کر ایک گاڑی 10 سے 15 دنوں تک ہائی وے پر گھوم رہی ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ممکنہ حملے کی خبر ملتے ہی پولیس میں اعلی سطح کے تبادلے کردیئے گئے۔ ستیہ ملک نے ہر انٹرویو میں کہا کہ 2700 فوجیوں کا 78 گاڑیوں پر مشتمل بڑا قافلہ بذریعہ سڑک نہیں جا سکتا اور اگر مجبوری کی حالت میں ایسا کرنا پڑے تو گاڑیوں کی سپیڈ تیز رکھی جاتی ہے جس سے دھماکہ خیز مواد زیادہ اثر نہیں کرتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قافلے کی سپیڈ جان بوجھ کر آہستہ رکھی گئی تھی۔ رویش کمار کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت کچھ میڈیا نے مودی سے یہ سوال پوچھے لیکن بالا کوٹ پاکستان میں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کرتے ہی میڈیا کا رخ بدل گیا۔ پلوامہ حملہ بھول کر ہر جگہ بالا کوٹ کا واویلہ کر رہا تھا۔ کوئی میڈیا یہ نہیں پوچھ رہا تھا اور نہ یہ پوچھنے دیا جارہاتھا کہ پلوامہ حملے کے وقت مودی کئی گھنٹے کے لئے ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کیوں کر رہے تھے جب کہ ان کی حکومت کے 9 سال کے دوران وہ ایک گھنٹہ بھی پریس کانفرنس کے لئے نہیں نکال سکے تھے۔ بالا کوٹ کا واقعہ ہونے کے بعد جیت کا اعلان کر دیا گیا جس سے پلوامہ کی وہ بحث جو مودی کی مقبولیت کو دھڑام سے نیچے گرا چکی تھی پیچھے چلی گئی اور بالا کوٹ کی نام نہاد جیت نے مودی کو دوبارہ مقبول بنا دیا۔ یہ اصل وجہ تھی کہ پلوامہ واقعہ کے بارے میں ستیہ پال ملک کو چپ رہنے کو کہا گیا کیونکہ پلوامہ کو بنیاد بناکر بالا کوٹ کا واقعہ اس پلان کا حصہ تھا جس سے ایک انتہائی غیرمقبول سیاسی لیڈر کو دوبار مقبول بنا گیا۔
راحت اندوری نے کیا خوبصور شعر کہا تھا
سرحدوں پر بہت تناو ہےکیا
کچھ پتا تو کروچناو ہے کیا
2019 کے انتخابات سے قبل بیروزگاری کے سوالوں کو لے کر مودی مکمل طور پر پنس چکے تھے۔ کوئی جواب نہیں تھا تو کہہ دیا پکوڑےتلنا بھی روزگار ہے۔ اس بیان پر بہت ہنگامہ مچا ہوا تھا اسی کے بعد پلوامہ ہوتا ہے جس کے بالاکوٹ کا ڈرامہ۔ جس سے ہر ریاست کے نوجوان سب کچھ بھول کر مودی کے دیوانے ہو گئے تھے۔ انتخابات کا سارا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر پاکستان سے بھارتی ہائی کمشمنر کو واپس بلا لیا گیا اس کے ساتھ پاکستان کو دیا گیا فوسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ واپس لے لیا گیا۔26 فروری کو جس دن بالاکوٹ کا ڈرامہ کیا گیا اس واقعہ کی ٹی وی کوریج صرف چند گھنٹے جاری رہی پاکستان کو مبینہ طور پر جواب دے کر مودی میٹرو بس میں سفر کرتے ہوئے پورے دہلی کے سفر پر نکل پڑے اور یوں ان کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے کامیابی کی طرف چل پڑی اور ٹی وی پر صرف مودی ہی نظر آنے لگے۔ نام نہاد بہادری بھارتی فوج کی لیکن ٹی وی پر فوٹو مودی کی اور ان کے حامی میڈیا نے ماحول بنادیا کہ وزیراعظم ایسا دلیر ہونا چاہیئے۔ پاکستان کو جواب دے کر لیڈر آزادی سے گھومے بھارت کو ایسا حکمران چاہیئے۔ لوگوں تک ان سوالوں کے جواب پہنچنے سے رہ گئے کہ پلوامہ حملے کے وقت وزیراعظم کیا کررہے تھے۔ فوجیوں کی حفاظت میں کمی کیوں رہ گئی۔ ستیہ پال ملک کے بیان کو مودی مودی کے شور میں دبا دیا گیا۔ یوں مودی کی جماعت انتخابات جیت گئی اور مودی دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ ایک سال بعد بی بی سی نے پلوامہ کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس میں رپورٹر کانام نہیں شائع کیا گیا۔رپورٹ میں مرنے والے فوجیوں کے اہل خانہ نے کہا کہ انہیں ابھی تک پلوامہ حملے کی اصلیت سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ انہیں معاوضہ تو مل گیا لیکن ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ پلوامہ کا واقعہ کیسے ہوا۔ جو کوئی پلوامہ کی تحقیقات کی بات کرتا اسے بھارت دشمن اور پاکستان کی زبان بولنے والا قرار دیا جاتا۔ ایسا ماحول بنا دیا گیاجس سے ثابت ہوتا تھا کہ مودی پلوامہ حملے کے باعث انتہائی شاک میں ہیں لیکن ڈیلی ٹیلگراف نے مودی کی سات دن کی تصاویر شائع کردیں جس میں وہ قہقہے لگاتے نظر آرہے تھے۔