انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ (ECB) نے پٹوڈی ٹرافی کو ریٹائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پٹوڈی ٹرافی پہلی مرتبہ 2007 میں بھارت کے انگلینڈ کے دورے کے دوران متعارف کرائی گئی تھی، جب دونوں ممالک کے درمیان 3 میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کھیلا گیا تھا۔ ہر بار جب بھارت کرکٹ ٹیم انگلینڈ کا دورہ کرتی ہے، تو اس سیریز کے فاتح کو پٹوڈی ٹرافی دی جاتی تھی۔
پٹوڈی ٹرافی کا نام پٹوڈی خاندان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس ٹرافی کا آغاز ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے کیونکہ اَفتخار علی خان پٹوڈی وہ واحد شخص تھے جنہوں نے بھارت اور انگلینڈ دونوں کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلا۔ ان کے بیٹے، منصور علی خان پٹوڈی، بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں شمار کیے جاتے ہیں، جنہوں نے 1961 سے 1975 تک بھارت کی قیادت کی اور 46 ٹیسٹ میچز کی قیادت کی۔پٹوڈی ٹرافی 2007 میں متعارف کرائی گئی تھی، جو کہ 1932 میں بھارت اور انگلینڈ کے درمیان پہلے ٹیسٹ میچ کی 75ویں سالگرہ تھی۔
اب جب کہ انگلینڈ کرکٹ ٹیم بھارت کے لیے 5 میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کے لیے روانہ ہو رہی ہے، جو 20 جون سے شروع ہوگی، انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے پٹوڈی ٹرافی کو ریٹائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے پٹوڈی خاندان کو اس تبدیلی کے بارے میں آگاہ بھی کر دیا ہے۔ECB کی خواہش ہے کہ بھارت اور انگلینڈ کے ٹیسٹ سیریز کو حالیہ کرکٹ لیجنڈز کے نام پر تبدیل کیا جائے، جیسے کہ "بارڈر گاوسکر ٹرافی” جو 1996 میں بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان سیریز کے دوران متعارف کرائی گئی تھی۔
پٹوڈی ٹرافی کے خاتمے پر کچھ سیاسی حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے مسلمانوں کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ پٹوڈی ٹرافی کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ کا مظہر ہو سکتا ہے، کیونکہ منصور علی خان پٹوڈی نے بھارت کے لیے کرکٹ کھیلا تھا، جبکہ ان کے والد اَفتخار علی خان پاتودی انگلینڈ کے لیے کھیل چکے تھے۔یہ معاملہ یقیناً ایک نئی بحث کو جنم دے سکتا ہے، خاص طور پر بھارت اور انگلینڈ کے کرکٹ تعلقات میں تاریخی اہمیت رکھنے والے پٹوڈی ٹرافی کے خاتمے پر۔
موجودہ بھارتی حکومت، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں، کرکٹ کی تاریخ اور ان کے اپنے مسلم کرکٹرز کی تاریخ کو نظرانداز کر رہی ہے۔ ای سی بی کی یہ تجویز مسلمانوں کی تاریخ کے حوالے سے غیر منصفانہ اور بدنیتی پر مبنی ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب ماضی میں مسلمان کھلاڑیوں نے کرکٹ میں بھارتی کرکٹ کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ تجویز اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ ایک تاریخی حقیقت کو بدلنا، جس میں مختلف اقلیتی کمیونٹیز کا بھی اہم کردار رہا، ایک طرح سے ان کی قربانیوں اور کامیابیوں کو نظرانداز کرنا ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور کرکٹ کی اعلیٰ حکام سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں اور سیریز کے نام میں تبدیلی کرنے کے بجائے ماضی کے مسلمان کرکٹرز کے کردار کو تسلیم کریں۔
نام کی تبدیلی پر کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مودی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کا حصہ ہے۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ان شخصیات کو نشانہ بنا رہی ہے جن کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔تنازع کے بعد، سوشل میڈیا پر بھی بحث چھڑ گئی ہے، جہاں کچھ لوگ حکومت کے فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ دیگر اسے مسلم منافرت قرار دے رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت تاریخی شخصیات کے نام تبدیل کرکے اپنی سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھا رہی ہے۔حکومت کی جانب سے ابھی تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔یہ تنازع بھارت میں مذہبی اور سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔








