مودی، جنوبی ایشیا کا نیتن یاہو: خطے میں جنگ، پراکسی حملے اور آبی دہشتگردی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
جنوبی ایشیا ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا ہےاور اس بار قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اپنی سیاست، پروپیگنڈا اور عسکری عزائم کے امتزاج سے نیتن یاہو کی پرچھائی بن چکا ہے۔ نریندر مودی صرف بھارت کا وزیراعظم نہیں بلکہ اب ایک ایسے حکمران کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں جو اسرائیلی طرز کی ریاستی دہشتگردی، فالس فلیگ آپریشنز اور پراکسی جنگ کو اپنی پالیسی کا مرکزی ہتھیار بنا چکا ہے۔ راجستھان میں کھڑے ہوکرخطے کو تباہ کرنے کی دھکیاں،بلوچستان میں دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے فورمز سے لے کر سندھ طاس معاہدے کی معطلی تک، مودی حکومت کی ہر چال جنوبی ایشیا میں ایک طویل، خطرناک اور غیر متوقع کشیدگی کو جنم دے رہی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا اس بھارتی جارحیت کو محض انتخابی نعرہ سمجھنے کے بجائے ایک حقیقی خطرہ تصور کرے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کو نگلنے کے درپے ہے۔

مودی کی حالیہ دھمکیاں، بلوچستان میں معصوم بچوں پر دہشت گرد حملے اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی اس جارحانہ پالیسی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے بھارت نہ صرف پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے بلکہ خطے میں مسلسل کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ فالس فلیگ آپریشنز اور ریاستی سطح پر دہشتگردی کی پشت پناہی سے بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ ان اقدامات کا سنجیدگی سےسخت نوٹس لے اور جنوبی ایشیا کو ایک ممکنہ تباہ کن تصادم سے بچانے میں کردار ادا کرے۔

راجستھان جلسے میں مودی کی تقریر اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ انتخابی فوائد حاصل کرنے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دے رہاہے۔ "پہلگام حملے کا بدلہ 22 منٹ میں لینے” جیسے دعوے، پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکیاں، اور "سندور جب بارود میں بدلتا ہے” جیسے الفاظ اُن کی جنگی نفسیات اور پاکستان دشمنی کے واضح مظاہر ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز پر پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کر کے اسے سفارتی تنہائی کا شکار بنایا جائے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

بلوچستان کےضلع خضدار میں سکول بس پر ہونے والا حملہ، جس میں تین طالبات سمیت پانچ افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے، بھارتی پراکسی نیٹ ورک کی گھناونی سازش کا نتیجہ تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ حملہ بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے گروہوں کے ذریعے کروایا گیا، جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کی سرپرستی حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور وفاقی وزراء نے کھل کر اجیت دوول کے کردار کی نشاندہی کی، جو بھارت کی جارحانہ خفیہ پالیسیوں کا معمار مانا جاتا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات بھارت کے پراکسی نیٹ ورکس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔

اسی تسلسل میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور رنبیر نہر کی توسیع جیسے اقدامات کو دیکھا جائے تو یہ پاکستان کے خلاف واٹر وار کی باقاعدہ ابتدا ہے۔ "خون اور پانی اکٹھے نہیں بہہ سکتے” جیسے بیانات مودی کے اس جنگی بیانیے کی توسیع ہیں جس کے تحت بھارت پاکستان کے معاشی استحکام پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے خطے میں بھوک، قحط اور غربت کو فروغ ملنے کا شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔

پاکستانی قیادت نے ان جارحانہ اقدامات کا بروقت جواب دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مظفرآباد میں اپنے خطاب میں واضح کیا کہ پاکستان نے نہ صرف بھارتی دھمکیوں کو مسترد کیا بلکہ 1971 کی شکست کے زخموں کا ازالہ کر دیا۔ پاک فضائیہ نے بھارتی طیارے مار گرائے اور الفتح میزائلوں کے ذریعے بھرپور دفاعی صلاحیت کا عملی مظاہرہ کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے خضدار حملے کو مودی کی پراکسی جنگ کا حصہ قرار دیا اور گجرات سے لے کر بلوچستان تک پھیلے بھارتی دہشت گرد نیٹ ورک کو بے نقاب کیا۔ چین، امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

یہ سب حقائق تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اب اپنی سفارتی مہم کو مزید فعال کرے اور اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر بھارت کے جنگی جنون، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پراکسی حملوں کا ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ پردہ فاش کرے۔ نریندر مودی جس راستے پر چل رہاہے، وہ راستہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی تباہ کن پالیسیوں سے مختلف نہیں۔ ریاستی دہشتگردی، مذہبی شدت پسندی اور جارحیت کا امتزاج پورے جنوبی ایشیا کو ایک ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل رہا ہے۔

ایسے میں پاکستان کی ریاست، افواج، انٹیلی جنس ادارے اور عوام کو ایک صف میں کھڑا ہونا ہو گا۔ دشمن کے حملوں کو ناکام بنانے، بین الاقوامی سطح پر مؤثر مؤقف اپنانے اور داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں بلکہ اپنے نظریاتی، جغرافیائی اور آبی سرحدوں کے دفاع کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا ہے۔ مودی سرکار کی بڑھتی ہوئی جارحیت نے واضح کر دیا ہے کہ اب پاکستان کو صرف زبانی مذمت سے آگے بڑھنا ہو گا۔

مودی کی فاشسٹ پالیسیوں، پراکسی حملوں اور آبی دہشتگردی نے بھارت کو ایک ذمہ دار جمہوریت کے بجائے عسکریت پسند ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا اعتراف،جعفر ایکسپریس ، خضدار میں معصوم طالبات پر حملے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی جڑیں کہاں پیوست ہیں۔ مودی کا طرزِ حکمرانی اب نیتن یاہو سے مشابہ ہو چکا ہے ، جہاں امن کی کوئی گنجائش نہیں، صرف طاقت کی زبان بولی جاتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو نہ صرف اپنی داخلی صفوں کو مضبوط کرنا ہو گا بلکہ عالمی برادری کے سامنے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ مقدمہ پیش کرنا ہو گا کہ خطے میں اصل خطرہ کہاں سے جنم لے رہا ہے۔ یہ وقت اتحاد، تدبر اور ہم آہنگی کا ہے کیونکہ وطن کی حفاظت اب محض اداروں کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Shares: