معروف شاعر محسن بھوپالی کا یوم وفات

0
64

ابلاغ کے لیے نہ تم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا
محسن بھوپالی

نام عبدالرحمن، تخلص محسنؔ بھوپالی 29؍ ستمبر 1932ء کو بھوپال (مدھیہ پردیش) میں پیدا ہوئے۔ محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ءسےہوا اوروہ کم و بیش ساٹھ سال تک ادب کےمیدان میں فعال رہےاس دوران ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں ”میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیئے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن“ شامل ہیں۔

محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اردو میں لکھی جانے والی کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔

محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

تلقین اعتماد وہ فرمارہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

محسنؔ بھوپالی کا انتقال17؍جنوری2007ء کو کراچی میں ہوا۔ وہ پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

اشعار
۔۔۔۔۔۔
نیرنگیِ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

ایک مدت کی رفاقت کا ہو کچھ تو انعام
جاتے جاتے کوئی الزام لگاتے جاؤ

جانے والے سب آ چکے محسنؔ
آنے والا ابھی نہیں آیا

ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسنؔ
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے

اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح
آج خود اپنے طلب گار ہیں ہم

جو ملے تھے ہمیں کتابوں میں
جانے وہ کس نگر میں رہتے ہیں

کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہوگا
تو نہیں ہوگا تری بزم میں آنا ہوگا

لفظوں کے احتیاط نے معنی بدل دیئے
اس اہتمام شوق میں حسن اثر گیا

زندگی گل ہے نغمہ ہے مہتاب ہے
زندگی کو فقط امتحاں مت سمجھ

بدن کو روندنے والو ضمیر زندہ ہے
جو حق کی پوچھ رہے ہو تو حق ادا نہ ہوا

لفظوں کو اعتماد کا لہجہ بھی چاہئے
ذکر سحر بجا ہے یقین سحر بھی ہے

سورج چڑھا تو پھر بھی وہی لوگ زد میں تھے
شب بھر جو انتظار سحر دیکھتے رہے

بات کہنے کی ہمیشہ بھولے
لاکھ انگشت پہ دھاگا باندھا

اس لیے سنتا ہوں محسنؔ ہر فسانہ غور سے
اک حقیقت کے بھی بن جاتے ہیں افسانے بہت

اس سے مل کر اسی کو پوچھتے ہیں
بے خیالی سی بے خیالی ہے

کس قدر نادم ہوا ہوں میں برا کہہ کر اسے
کیا خبر تھی جاتے جاتے وہ دعا دے جائے گا

ابلاغ کے لئے نہ تم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا

محسنؔ اور بھی نکھرے گا ان شعروں کا مفہوم
اپنے آپ کو پہچانیں گے جیسے جیسے لوگ

محسنؔ اپنائیت کی فضا بھی تو ہو
صرف دیوار و در کو مکاں مت سمجھ

سوچا تھا کہ اس بزم میں خاموش رہیں گے
موضوع سخن بن کے رہی کم سخنی بھی

اب کے موسم میں یہ معیار جنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے

خندۂ لب میں نہاں زخم ہنر دیکھے گا کون
بزم میں ہیں سب کے سب اہل نظر دیکھے گا کون

کوئی صورت نہیں خرابی کی
کس خرابے میں بس رہا ہے جسم

پہلے جو کہا اب بھی وہی کہتے ہیں محسنؔ
اتنا ہے بہ انداز دگر کہنے لگے ہیں

صدائے وقت کی گر باز گشت سن پاؤ
مرے خیال کو تم شاعرانہ کہہ دینا

روشنی ہیں سفر میں رہتے ہیں
وقت کی رہ گزر میں رہتے ہیں

اے مسیحاؤ اگر چارہ گری ہے دشوار
ہو سکے تم سے نیا زخم لگاتے جاؤ

Leave a reply