ڈاکٹر عبدالسلام کی برسی پر اُنکی خدمات پر پوسٹ کی تو چند لوگوں نے کمنٹ میں خصوصی طور پر کہا کہ محسنِ پاکستان پر بھی کچھ لکھوں تو لیجیے معلومات کے لیے محسنِ پاکستان جناب عبدالستار ایدھی صاحب پر بھی ایک پوسٹ حاضر ہے۔ گو اُن جیسی قدآور شخصیت پر خاکسار کی کیا اہلِ علم۔و دانش کی لاکھوں پوسٹ یا مضامین بھی ہوں تو ناکافی ہیں مگر اہلِ علم کی تشنگی بڑھانے کے لئے گھڑے میں ایک کنکری ہم بھی ڈالے دیتے ہیں۔
محسنِ پاکستان جناب عبدالستار ایدھی صاحب بھارتی گجرات کے چھوٹے سے قصبے بنتوا میں 28 فروری 1928 میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ یند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آئے اور 1957 میں آنے والی چینی وبا ایشین فلو میں رضاکار کے طور پر کام شروع کیا۔ یہیں سے اُنہوں نے اپنی پہلی ایمبولینس خریدی اور انسانیت کی خدمت میں جُت گئے۔
اپنی شریکِ حیات بلقیس ایدھی جو خود پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں کے ساتھ ملکر ایدھی فاؤنڈیشن قائم کی جسکا مقصد پاکستان میں انسانوں ہی کہ نہیں جانوروں کی بھی زندگی بچانا اور خدمت کرنا تھا۔
ملک بھر میں ایمبولنسیز کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا جس میں 1800 سے زائد ایمبولینسیز موجود ہیں۔
پاکستان میں جہاں کہیں آفت ، سیلاب ، زلزلے آتے ایدھی صاحب کی فاؤنڈیشن وہاں وہاں حکومتی اداروں سے پہلے پہنچتی۔ ملک کو جب دہشتگردی نے لپیٹا تو ہر خود کش دھماکے میں پہلے پہلے اُنکی سروس پہنچتی۔ ایدھی صاحب انسانیت کو مذہب مانتے تھے۔ وہ بلا کسی رنگ، نسل، مذہب ، زبان کی تفریق کے ہر کسی کی مدد کو پہنچتے۔
یتیموں کا پرسانِ حال یہ محسنِ پاکستان، 20ہزار سے زائد بچوں کو پالتا رہا۔ کئی یتیم بچوں کے والد کے خانے میں ایدھی صاحب کا نام اور والدہ کے خانے میں بلقیس ایدھی صاحبہ کا نام آج بھی درج ہے۔
کوئی بھی کیسی بھی مشکل میں ہوتا، ایدھی صاحب کا در اُسکے لیےکھلا ہوتا۔ یتیم خانے، سکول، ہسپتال، ڈسپنسریاں ، بے گھر افراد کے لیے رہائش گاہ، جانوروں کے لیے محفوظ پناہگاہیں، نشے کے عادی افراد کے علاج کے سینٹر۔ غرض کیا کیا ہے جو محسنِ پاکستان عبدالستار ایدھی صاحب نے نہیں کیا۔
اُنکا فلاحی کام محض پاکستان تک محدود نہیں تھا بلکہ دیگر ممالک میں بھی جب کوئی قدرتی آفت آتی تو ایدھی فاؤنڈیشن دل کھول کر اُنکی مدد کرتی۔ یہاں سے راشن، کپڑے، خوراک، ادوایات ان ممالک کو بھیجی جاتیں۔
ایدھی صاحب کو اپنی زندگی میں کئی ملکی و غیر ملکی اوراڈز سے نوازا گیا مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ان ایوارڈز کی توقیر ہے کہ اِنکو ایدھی صاحب کو دیا گیا۔
ایدھی صاحب کے دو اقوال یہاں نقل کرنا چاہوں گا جس سے اندازہ ہو گا کہ محسنِ پاکستان عبدالستار ایدھی کس قدر بلند سوچ کے مالک تھے۔
1.”کئی برس بیتنے کے بعد اب بھی مجھ سے کچھ لوگ سوال اور شکایت کرتے ہیں کہ آپ اپنی ایمبولینس میں کسی ہندو یا عیسائی کو کیوں لے جاتے ہیں؟ تو میں اُنہیں جواب دیتا ہوں: کیونکہ میری ایمبولینس تم سے زیادہ مسلمان ہے”.
2. "کم تعلیم یافتہ ہونا محض اّنکے لیے معذوری ہے جو اپنی تمام عمر چلنے پھرنے اور بولنے میں گزارتے ہیں جبکہ اُنکےدماغ سوئے رہتے ہیں”.








