پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے آٹھویں ایڈیشن کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کی تقسیم نہ ہونے کے معاملے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی کو طلب کر لیا ہے۔ آڈٹ پیرا کے جائزے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پی سی بی اور فرنچائزز کے درمیان اس رقم کی تقسیم نہیں کی گئی، جس پر پی اے سی نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیا۔
آڈٹ حکام کے مطابق پی سی بی اور فرنچائزز کے درمیان رقم کی غیر منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا معاملہ کئی مہینوں سے چل رہا ہے، اور پی اے سی نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس دوران چیئرمین پی اے سی نے سوال کیا کہ کیا پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کو آج کمیٹی میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ جس کے بعد پی اے سی نے اگلی میٹنگ میں محسن نقوی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔
کمیٹی کے اجلاس کے دوران، سیکریٹری کابینہ نے بتایا کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں حالیہ واقعات کی وجہ سے وزیر داخلہ کا اجلاس میں آنا ممکن نہیں تھا، تاہم ثناء اللہ مستی خیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ کا ملک سے باہر ہونا انتہائی تشویشناک ہے، ایسے حالات میں وہ وزیر داخلہ کا کردار بھی ادا نہیں کر رہے،کمیٹی کے ایک رکن نے یہ بھی نشاندہی کی کہ نگران سیٹ اپ میں غیر قانونی طور پر پی سی بی کو کابینہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے، جس پر سیکریٹری کابینہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ اب ملک میں ہیں اور بیرون ملک نہیں ہیں۔
اسی دوران، پی اے سی کے رکن سید نوید قمر نے کہا کہ ہم چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کے بغیر آڈٹ پیرا پر بحث نہیں کر سکتے، اور اگر وہ کمیٹی میں شرکت نہ کریں تو آپ نوٹس جاری کر سکتے ہیں۔ نوید قمر نے مزید کہا کہ آپ سول جج کے اختیارات کے تحت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر سکتے ہیں اگر چیئرمین پی سی بی نے کمیٹی میں آنا ضروری نہیں سمجھا۔