موجودہ دور اور اُردو زبان کی جنگ
ازقلم:ارم سعید
اردو زبان برصغیر کی ایک مایہ ناز، شیریں، دلکش اور ہمہ گیر زبان ہے۔ اس نے اپنے دامن میں نہ صرف شاعری، نثر، تاریخ، فلسفہ اور سائنس کی دولت سمیٹی ہے، بلکہ تہذیب، ثقافت، شائستگی، اور محبت کی زبان بھی کہلائی ہے۔ اردو نے ہندو مسلم یکجہتی، صوفی ازم، اور عوامی مزاحمت کی آواز بن کر صدیوں تک ایک روشن کردار ادا کیا۔ لیکن آج کے تیز رفتار، ٹیکنالوجی کے غالب، اور عالمی زبانوں کے غلبے والے دور میں اردو زبان کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو زبان آج ایک نفسیاتی، تہذیبی اور سماجی جنگ لڑ رہی ہے—ایک ایسی جنگ جس کا میدان تعلیمی ادارے، سوشل میڈیا، حکومتی پالیسیاں، اور ہماری روزمرہ زندگی ہے۔ یہ مضمون اردو زبان کی اس جنگ کا جائزہ لیتا ہے، اس کے اسباب، اثرات اور ممکنہ حل پر روشنی ڈالتا ہے۔

اردو زبان: ایک تاریخی پس منظر
اردو زبان کی جڑیں دکن سے دہلی تک اور پنجاب سے لکھنؤ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نے فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت اور مقامی بولیوں سے الفاظ لے کر ایک منفرد اسلوب اختیار کیا۔ مغلیہ دور میں اسے درباری زبان کی حیثیت حاصل ہوئی اور بعد ازاں یہ عوام الناس کی زبان بن کر ابھری۔ اردو نے تحریک آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سرسید، حالی، اقبال اور قائداعظم نے اسے ایک قومی شناخت کی علامت بنایا۔

1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے محض علامتی طور پر اپنایا گیا، عملی طور پر انگریزی کا غلبہ قائم رہا۔

موجودہ دور کے تقاضے اور اردو زبان
موجودہ دور میں دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ انگریزی زبان بین الاقوامی رابطے، تعلیم، تجارت، سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زبان بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکول میں داخل کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اردو زبان جو کبھی علم و تہذیب کی علامت تھی، اب کمزور طبقات، پسماندہ علاقوں یا صرف جذباتی نعروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

تعلیمی نظام اور اردو کا حاشیہ نشین ہونا
پاکستان کا تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔ ایک طرف انگلش میڈیم، کیمبرج اور آئی بی جیسے ادارے ہیں جو مغربی معیار تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں، دوسری طرف اردو میڈیم سرکاری اسکول ہیں جو وسائل کی کمی، ناقص نصاب اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے باعث پسماندگی کا شکار ہیں۔

اردو میڈیم تعلیم کو حقیر، کم درجے کی اور "ناکام لوگوں” کا راستہ سمجھا جانے لگا ہے۔ یہی سوچ اردو زبان کی وقعت کو گھٹا رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچے اردو بولنے سے کتراتے ہیں، اردو لکھنے سے قاصر ہیں اور اردو ادب سے ناواقف ہیں۔

میڈیا، انٹرنیٹ اور زبان کا استحصال
سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے زبان کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ "رومن اردو” یعنی انگریزی حروف میں اردو لکھنے کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ نوجوان طبقہ "Ap kya kr rhy ho?” جیسے جملے استعمال کر کے زبان کی ساخت اور جمالیات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ٹی وی چینلز، ڈرامے، فلمیں اور اشتہارات میں اردو کی جگہ ایک مخلوط زبان نے لے لی ہے جو نہ مکمل اردو ہے، نہ مکمل انگریزی۔ یہ زبان دراصل "انگریزی زدہ اردو” ہے، جو اردو کی اصل روح کو مجروح کر رہی ہے۔

اردو زبان کے خلاف سازش یا ہماری بے حسی؟
کیا اردو زبان کے ساتھ زیادتی دانستہ ہو رہی ہے؟ یا ہم خود اپنی زبان سے بے وفائی کر رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے خلاف کوئی خارجی سازش نہیں، بلکہ ہماری اپنی نیت، رویہ اور ترجیحات اس کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔ ہم نے اسے صرف شاعری، جذبات، تقریروں اور تقریبات تک محدود کر دیا ہے۔

ہماری جامعات میں تحقیق انگریزی میں ہوتی ہے، دفاتر میں مراسلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، عدالتوں کے فیصلے انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اردو کو صرف ترجمے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، جب کہ اسے خود علمی زبان بننے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اردو زبان کی بقا: روشن مثالیں اور امید کی کرن
اگرچہ مجموعی صورتحال مایوس کن ہے، لیکن کچھ روشن مثالیں اب بھی موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ نوجوان اردو شاعری، ادب، اور تحریر کو فروغ دے رہے ہیں۔ یوٹیوب چینلز، اردو بلاگز، پوڈکاسٹس اور آن لائن لٹریچر پلیٹ فارمز اردو کو نئی زندگی دے رہے ہیں۔

اردو ادب کی نئی صنف "اردو افسانوی وی لاگنگ” ابھر رہی ہے، جہاں نوجوان اپنی کہانیوں کو ویڈیو کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جو اردو کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑ سکتی ہے۔

حکومت، تعلیمی ادارے اور معاشرتی کردار
اردو زبان کے فروغ کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے:

قومی نصاب میں اردو زبان کی تدریس کو مضبوط کیا جائے۔
سائنسی و تکنیکی مواد اردو میں ترجمہ کیا جائے۔
دفاتر اور عدالتوں میں اردو کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
اردو ادب اور زبان کے ماہرین کو قومی سطح پر پذیرائی دی جائے۔
اردو زبان کی ترقی کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔

اسی طرح تعلیمی اداروں کو اردو زبان کی تدریس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانا چاہیے۔ اردو کو بوریت یا مجبوری کے طور پر نہیں بلکہ ایک زندہ اور موثر زبان کے طور پر پیش کیا جائے۔

ہمارا انفرادی اور اجتماعی فرض
ہر فرد کا بھی فرض ہے کہ وہ اردو زبان کو صرف جذباتی یا قومی فخر کے طور پر نہ دیکھے بلکہ اس کے عملی استعمال کو فروغ دے۔ گھر میں اردو بولی جائے، کتابیں اردو میں پڑھی جائیں، اردو اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس کو فروغ دیا جائے۔
والدین اپنے بچوں کو اردو ادب سے روشناس کرائیں۔ اساتذہ اردو کو صرف نصاب تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کے تخلیقی پہلو کو اجاگر کریں۔

اردو زندہ ہے، لیکن خطرے میں ہے
اردو زبان محض ایک لسانی اظہار نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک روایت اور ایک تاریخ کا نام ہے۔ موجودہ دور میں اسے مختلف محاذوں پر جنگ لڑنی پڑ رہی ہے تعلیم، میڈیا، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قومی پالیسی کی سطح پر۔
اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو آنے والے وقت میں اردو صرف کتب خانوں اور ماضی کی یادگاروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن اگر ہم نے اس زبان کی حفاظت، ترقی اور فروغ کو اپنا مشن بنا لیا تو یہ زبان نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ دنیا میں اپنا مقام بھی واپس حاصل کرے گی۔

اردو کو بچانا صرف زبان کو بچانا نہیں، بلکہ اپنی شناخت، ثقافت، تاریخ اور تہذیب کو بچانا ہے۔

Shares: