جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان افغان حکومت کی دعوت افغانستان روانہ ہوگئےمولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ پارٹی رہنماؤں پر مشتمل اعلیٰ سطح کا وفد بھی روانہ ہوا ہے۔ترجمان جے یو آئی اسلم غوری کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن افغان حکومت کی خصوصی دعوت پر افغانستان گئے ہیں، ان کے اس دورے میں خطے میں امن و امان کی صورتِ حال پر بات چیت ہو گی۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کے دورۂ افغانستان میں 7 رکنی وفد میں مولانا عبدالواسع، سلیم الدین شامزئی، مولانا امداد اللّٰہ، دارالعلوم حقانیہ کے مولانا ادریس حقانی، مولانا صلاح الدین ایوبی، مفتی ابرار اور اپر جنوبی وزیرستان سے سابق رکن اسمبلی مولانا جمال الدین محسود شامل ہیں۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی افغان عبوری حکومت کے حکام اور افغان علمائے کرام سے ملاقاتیں ہوں گی، دورے میں پاک افغان تعلقات اور دیگر امور پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمان نے گذشتہ روز اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کی اور انہیں بتایا کہ ٹی ٹی پی کا معاملہ بھی ان کی افغان حکام سے بات چیت میں شامل ہوگا۔مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ وہ قندھار بھی جائیں گے جہاں ان کی افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات ہوگی۔ طالبان سربراہ غیرملکی رہنماؤں سے بہت کم ملتے ہیں۔
اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہیں دورے کی دعوت طالبان سربراہ کی منظوری سے دی گئی ہے اور وہ ان سے ملیں گے۔جب پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹی ٹی پی کا معاملہ افغان حکام کے ساتھ اٹھائیں گے تو انہوں نے کہا کہ ہاں، اس کا امکان ہے، ہم اپنا تعلق خیر سگالی کے لیے استعمال کریں گےمولانا فضل الرحمان پچھلی مرتبہ دس برس قبل 2013 میں کابل گئے تھے جب وہاں حامد کرزئی کی حکومت تھی.. مولانا فضل الرحمان کاایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ کشیدگی کم کرنے کا انحصار پاکستان اور طالبان حکومت پر ہے، اگر وہ برادرانہ تعلقات چاہتے ہیں تو پیچیدہ معاملات بھی حل ہوسکتے ہیں لیکن اگر ارادہ نہیں تو چھوٹی باتیں بھی بڑی ہوسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے جو اشارے انہیں ملے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا دورہ نتیجہ خیز ہوگا جب کہ افغان حکام بھی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

Shares: