اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو آئینی ترامیم کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس کے پیش نظر آئینی ترمیم کا بل مؤخر کیا جانا چاہیے اور اپوزیشن کو بھی اس دوران اپنا احتجاج مؤخر کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ آئینی ترامیم پر کسی بھی طرح کے "پلس” ہونے پر راضی نہیں ہیں، اور اس پر بظاہر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم میں جلدبازی سمجھ سے باہر ہے۔ مولانا نے اس تناظر میں یاد دلایا کہ ماضی میں 18ویں آئینی ترمیم پر 9 ماہ تک طویل مشاورت اور بحث ہوئی تھی، جب کہ آج کی حکومت 24 گھنٹے کے اندر ترمیم کرنے پر اصرار کر رہی ہے۔ انہوں نے اس معاملے پر زور دیا کہ ایسی جلدبازی ملکی مفاد میں نہیں ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدگی دکھانی چاہیے۔مولانا نے واضح طور پر کہا کہ "ہم حکومت کی آئینی ترامیم کی جلدی کو نہیں سمجھتے، اور ہم اس پر ان کے ساتھ نہیں ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ماضی میں مفادات کے لیے آئینی ترامیم تیار کی جاتی رہی ہیں تو حکومت کو اس پر فوری عمل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، لیکن جب قومی مفاد میں ترامیم کی بات ہوتی ہے تو اسے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63-A کے حوالے سے دیے گئے حالیہ فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی ایف سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرتی ہے، لیکن اس فیصلے میں کسی قسم کی "میچ فکسنگ” نہیں ہونی چاہیے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے فیصلے خرید و فروخت کا ذریعہ بننے نہیں چاہیے اور اس میں شفافیت اور دیانتداری کا پہلو نمایاں ہونا چاہیے۔مولانا نے مزید کہا کہ ان کی جماعت کے نزدیک قومی مسائل پر آئینی ترامیم میں عجلت کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کو جب اپنے مفادات کے لیے ترامیم کرنی ہوتی ہیں تو وہ فوری عمل کرتی ہے، لیکن جب عوامی مفادات کی بات ہوتی ہے تو تاخیر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔جے یو آئی کے سربراہ نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ آئینی ترامیم کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اور دونوں جماعتوں نے ایک متفقہ ڈرافٹ تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک متفقہ ڈرافٹ تیار کریں اور پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے ہو سکے، لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی نے ایک ڈرافٹ تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن بظاہر اس مسئلے پر مکمل اتفاق رائے نہیں بن پا رہا۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھیں تاکہ ملک میں ایک متفقہ آئینی ترمیم ممکن ہو سکے۔
دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ
مولانا فضل الرحمان نے دینی مدارس کے حوالے سے بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ "دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات حکومت کی جانب سے روک دیے گئے ہیں اور یہ مغربی طاقتوں کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔” مولانا کا کہنا تھا کہ حکومت کو دینی مدارس کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیے۔
فلسطین اور مسلم امہ کی خاموشی
مولانا فضل الرحمان نے اپنی پریس کانفرنس میں فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا بھی ذکر کیا اور عالمی برادری، بالخصوص مسلم امہ، کی خاموشی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ "فلسطینی مسلمانوں کا خون پی پی کر بھی اسرائیل کی پیاس نہیں بجھ رہی، اور اس وحشیانہ دہشتگردی کے خلاف مسلمانوں کو ایک متحدہ کمان میں آنا ہوگا۔” انہوں نے مسلم امہ کے حکمرانوں کی خاموشی کو قابل افسوس قرار دیتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل کی تاریخ انسانیت کے قتل سے بھری ہوئی ہے، اور ان کا یہ رویہ ناقابل برداشت ہے۔”مولانا نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں مسلمانوں کی نامور شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور عالمی برادری کو اس پر نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے مغربی طاقتوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل امریکا اور مغربی دنیا کے اسلحے سے لیس ہو کر مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کر رہا ہے۔” مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مسلم امہ کو اپنی پالیسی کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا اور سعودی عرب کو اس مسئلے پر قیادت کرنی چاہیے۔انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، مصر، اور ترکیہ کو مل کر ایک وفد تشکیل دینا چاہیے جو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ پیش کرے اور فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرے۔مولانا فضل الرحمان نے اپنی گفتگو کے اختتام پر زور دیا کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ موجودہ حالات میں اپنا احتجاج مؤخر کر دیں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنائیں۔
مولانا نے کہا کہ "ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں ملک کی ترقی، خوشحالی، اور عوام کے مسائل کے حل پر مرکوز کرنی چاہیے، اور اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔”








