چیف خطیب خیبر پختونخوا اور تاریخی مسجد مہابت خان کے امام و خطیب، مہتمم جامعہ اشرفیہ پشاور مولانا محمد طیب قریشی نے افغانستان کے ایک ہزار سے زائد علماء کرام کی جانب سے جاری کردہ اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے جس میں افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔
افغان علماء نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں امیرالمؤمنین سے سفارش کی ہے کہ وہ عناصر جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں، انہیں ریاستی سطح پر باغی قرار دیا جائے۔مولانا طیب قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نوعیت کے اعلانات دونوں برادر مسلم ممالک کو قریب لانے اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ان کے مطابق پاکستان کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ افغان حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو۔چیف خطیب نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔انہوں نے کہا "تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے افغان بھائیوں کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ ماضی میں پاکستانی حکومت اور دینی مدارس نے طالبان کی ہر طرح سے مدد کی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن طالبان کی حکومت کے بعد جو توقعات تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں۔”ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ پالیسیوں سے سب سے زیادہ نقصان افغان حکومت کو ہی ہوگا، جبکہ اس کا فائدہ ان گروہوں کو پہنچے گا جو افغانستان میں عدم استحکام کے منتظر ہیں۔
مولانا طیب قریشی نے افغانستان کے بھارت کے ساتھ بڑھتے معاشی و سفارتی تعلقات پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام خطے کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہا ہے۔انہوں نے کہا "جب افغان وزیر تجارت بھارت کے دورے پر تھے، انہی دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والے مندر کا افتتاح کیا، جس پر دنیا بھر کے مسلمان احتجاج کر رہے تھے۔ یہ صورتحال مقبوضہ کشمیر اور گجرات کے مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔”انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا تجارت کے لیے افغانستان کو 57 اسلامی ممالک میں سے کوئی دوست ملک نہیں ملا؟چیف خطیب نے دونوں ممالک کی قیادت پر زور دیا کہ وہ کشیدگی، غلط فہمیوں اور دوریوں کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں اور خطے کو امن، ترقی اور خوشحالی کی جانب لے جائیں انہوں نے کہا "وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کے مفادات کا احترام کریں۔ غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ آنے والی نسلوں کو وہ مشکلات نہ دیکھنی پڑیں جن کا سامنا آج خصوصاً افغانستان کر رہا ہے۔”








