اسرائیل کی جاری جارحیت نے غزہ میں انسانی المیہ پیدا کر دیا، 22 ماہ سے جاری مسلسل حملوں میں فلسطینی شہدا کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق امداد کی مسلسل ناکہ بندی سے بھی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے، جس کے باعث 147 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 88 بچے شامل ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں یومیہ اوسطاً 90 فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، اور یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہر 36 فلسطینیوں میں سے ایک شہید ہو چکا ہے، جو ظلم و ستم کی سنگین ترین مثال ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (اونروا) کے سربراہ نے فوری جنگ بندی اور بڑے پیمانے پر امداد کی اپیل کی ہے تاکہ انسانی بحران کو روکا جا سکے۔ایک بڑی پیشرفت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ "غزہ میں حقیقی بھوک ہے اور اس کے لیے اسرائیل کو ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔”

دوسری جانب، خود اسرائیل میں بھی تنقید کا سامنا ہے۔ دو اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں بی تسلیم اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل نے اپنی رپورٹس میں پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے صحت کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کیا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا ہے۔

عالمی برادری کی خاموشی اور تاخیر کے باعث غزہ کے شہریوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، جبکہ امدادی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے فوری مداخلت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

عادت سے مجبور گوتم گھمبیر کی پچ کے معاملے پر چیف کیوریٹر سے تلخ کلامی

مستونگ :سیکیورٹی خدشات، بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں، نقاب پوش افراد پرپابندی عائد

امریکا نے القاعدہ رہنما کی گرفتاری پر انعامی رقم 10 ملین ڈالر کر دی

یمن میں بھارتی نرس نمیشا پریا کی پھانسی مؤخر، سزا برقرار

Shares: