یہ ہے خیبر پختونخوا: ایوب ٹیچنگ ہسپتال سے MRI مشین چوری ہو گئی
تحریر: شاہد نسیم چوہدری
کہتے ہیں کہ دنیا ترقی کر رہی ہے۔ ہم خلا میں انسان بھیج رہے ہیں، مصنوعی ذہانت روبوٹ بن رہی ہے، اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے دنیا کو چھوٹے گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن بھائی، ایبٹ آباد کے ایوب ٹیچنگ ہسپتال کی ایم آر آئی مشین کا غائب ہونا ثابت کرتا ہے کہ ہمارا ڈیجیٹل دور بھی بعض اوقات دیہاتی کہانیوں جیسا ہو سکتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایم آر آئی مشین چوری کیسے ہوئی؟ یہ سوال ہر وہ پاکستانی پوچھ رہا ہے جو کبھی اپنی گلی میں دوپہر کے وقت پڑوس کے بچوں سے کرکٹ کا بلا چوری ہوتے دیکھ چکا ہو۔ لیکن ایم آر آئی مشین چوری ہونا اتنا سیدھا معاملہ نہیں جتنا لگتا ہے۔ یہ تقریباً چار ٹن وزنی مشین ہے۔ اسے ایسے اٹھا کر لے جانا جیسے کسی نے ہسپتال کے لان سے گلدان چرا لیا ہو، یقیناً کسی ناقابل یقین کہانی کا حصہ ہے۔
یہ واقعہ کسی مشہور کرائم فلم کے منظر کی طرح لگتا ہے۔ ایک گروپ آیا، اپنی کرائم پلاننگ کی اور مشین کو گاڑی پر لاد کر چلتا بنا۔ شاید کسی نے ان سے پوچھا ہو، "بھائی یہ کیا لے جا رہے ہو؟” اور جواب ملا ہو، "اوہ، یہ تو بچوں کا کھلونا ہے!” اور ہمارے محافظوں نے کہہ دیا ہو، "اچھا جی، لے جائیے!”
ویسے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس مشین کی قیمت تقریباً 38 کروڑ روپے ہے۔ اتنی قیمت تو کسی محلے کے پچاس پلاٹوں کی بھی نہیں ہوگی۔
ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد، خیبر پختونخوا کا ایک معروف ہسپتال ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے آلات کا اضافہ ہمیشہ سے عوامی صحت کے لیے خوش آئند رہا ہے۔ مگر اس بار وہاں کچھ ایسا ہوا کہ عوام کی صحت کے بجائے ان کی حسِ مزاح کو صحت مند کرنے کا موقع مل گیا۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں اس ایم آر آئی مشین کی جو توشیبا کمپنی سے 13 لاکھ 75 ہزار ڈالر کی خطیر رقم سے خریدی گئی اور بڑی شان سے ہسپتال پہنچائی گئی۔ اس مشین کی قیمت پاکستانی روپوں میں تقریباً 38 کروڑ بنتی ہے۔ مگر یہ کروڑوں کی مشین ہسپتال کے وارڈ میں "دو دن بھی ٹِک” نہ سکی اور چوری ہو گئی۔
اب آتے ہیں ان کیمروں کی طرف جنہیں بڑے فخر سے ہر جگہ لگایا جاتا ہے۔ اگر کوئی بندہ ہسپتال کے برآمدے میں سگریٹ پی رہا ہو تو کیمرہ فوراً الرٹ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب چار ٹن وزنی ایم آر آئی مشین ہسپتال سے غائب ہو رہی تھی، تب کیمروں نے شاید کہا ہو، "بھائی، یہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں ہے!”
تصور کریں کیمرہ چپکے سے دوسرا کیمرہ دیکھ کر کہہ رہا ہوگا، "یار، یہ کیا ہو رہا ہے؟” دوسرا کیمرہ جواب دیتا، "خاموش رہو، ہم ‘آف لائن’ ہیں!”
حکومت نے فوراً نوٹس لیا، انکوائری کمیٹی بنا دی، اور ایک رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ کیا ہوگی؟ شاید یہی کہ "چور بہت چالاک تھ اور ہم بے خبر!”
چوری کے اس واقعے نے کچھ سازشی نظریات کو بھی جنم دیا، جیسے
1.کیا یہ چوری واقعی ہوئی یا یہ ایک اندرونی معاملہ ہے؟
2.کیا مشین خریداری میں پہلے سے ہی کوئی گھپلا تھا؟
3.کیا چوروں کو کسی اندرونی شخص کی مدد حاصل تھی؟
4.ہو سکتا ہے نئی خریدی گئی مشین ہسپتال آئی ہی نہ ہو، اور صرف کاغذوں میں ظاہر کی گئی ہو۔
جب یہ خبر عام ہوئی کہ ایم آر آئی مشین چوری ہو گئی ہے تو پہلے پہل سب نے یہی سوچا کہ یہ کوئی مذاق ہے۔ آخر 38 کروڑ روپے کی مشین اتنی آسانی سے چوری ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی ہاتھی کو چھتری میں چھپا لے۔
مگر جیسے ہی تحقیقات کا آغاز ہوا تو صاف ظاہر ہو گیا کہ یہ کوئی معمولی واردات نہیں بلکہ ایک "ماسٹر پلان” کے تحت انجام دیا گیا کارنامہ ہے۔ کسی نے کہا کہ چور ہسپتال کے عملے کے بھیس میں آئے تھے تو کسی نے دعویٰ کیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں آئے اور مشین کو خاموشی سے نکال لے گئے۔
ایبٹ آباد کے عوام کی ہنسی اور حیرت کا ملا جلا ردعمل دیکھنے لائق تھا۔ ایک صاحب بولے "یار مجھے تو لگتا ہے کہ یہ چور مشین کو استعمال کرکے اپنی چوری کا اسکین کروا رہے ہوں گے!” دوسرے صاحب بولے، "ہوسکتا ہے، انہوں نے سوچا ہو کہ مشین کو بیچ کر نئے سال کا جشن منائیں گے۔”
یہ واقعہ پاکستان میں انتظامی ناکامی اور بدعنوانی کی ایک عجیب مثال ہے۔ جہاں عوام کو بنیادی صحت کی سہولیات بھی میسر نہیں، وہاں اتنی قیمتی مشین کی چوری ایک ایسا لطیفہ بن گیا ہے جسے سن کر ہنسی اور غصہ دونوں آتے ہیں۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جدید دور کی ٹیکنالوجی، چاہے جتنی بھی ترقی کر جائے، اگر انسان ذمہ داری نہ دکھائے تو کچھ کام نہیں آتی۔ کیمرے اپنی جگہ لیکن اگر انسان خود سوتا رہے تو چور جاگتے رہتے ہیں۔