کوپ 29:معاہدہ کے مسودے پر شدید اختلافات
باکو: آذربائیجان کے شہر باکو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس میں معاہدے کا مسودہ پیش کردیا گیا ہے لیکن شرکا کے درمیان اس پر شدید اختلافات ہیں۔
باغی ٹی وی : یورپی یونین کے موسمیاتی ایلچی نے مسودے کو ناقابل قبول قرار دیاجمعرات کو معاہدے کا جو مسودہ جاری کیا گیا ہے اس پر متعدد ملکوں اور فریقین نے سخت اعتراض کئے ہیں،گیارہ نومبر کو شروع ہونے والا یہ سمٹ آج جمعہ کو ختم ہو رہا ہے ، اس میں تقریباً دو سو ملکوں سے ہزاروں افراد نے شرکت کی، سمٹ کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں کےچیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے امیر ملکوں کی طرف سے غریب ممالک کی مالی مدد کا تعین کرنا ہےلیکن معاہدے کا یہ مسودہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے ۔
معاہدے کے مسودے میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا صرف روایتی صنعتی ممالک ہی مالی مدد کریں گے یا چین اور خلیجی ریاستوں جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو اپنا تعاون دینے کی ترغیب دی جائے گی۔
مرکزی مسئلہ مالی امداد کی رقم کا ہے یعنی ترقی پذیر اور ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے کتنی رقم مختص کی جائے آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کو گرم ہوتے معدنیاتی ایندھن سےدور رکھنے میں مدد کرنے اور شمسی توانائی اور ونڈ انرجی جیسی صاف توانائی کی طرف منتقل ہونے کے لیے کم از کم 10کھرب ڈالر کی ضرورت ہے ۔
بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ کی آب و ہوا کی بات چیت تباہی کے دہانے پر ہے کیونکہ چھوٹے جزیروں کی ریاستوں کی نمائندگی کرنے والا ایک گروپ آذربائیجان میں COP29 کے اہم اجلاس سے باہر ہو گیا ہےتقریباً 200 ممالک غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں مدد کے لیے رقم کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن جمعہ کے روز، غریب ممالک نے 2035 تک ہر سال 250 بلین ڈالر کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور اس میں نمایاں اضافے پر زور دے رہے تھے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کے موسمیاتی ایلچی نے مسودے کو ناقابل قبول قرار دیا،یورپی یونین کے موسمیا تی کمشنر ہوپکے ہوئکسٹرا نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "میں کوئی گول مول بات کرنا نہیں چاہتا، موجودہ شکل میں یہ معاہدہ واضح طور پر ناقابل قبول ہے۔”
جمعرات کی صبح کو جاری کیا گیا یہ مسودہ دس صفحات پر مشتمل ہے اس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے امیر ملکوں کی طرف سے غریب ممالک کی مالی مدد کا تعین کرنا ہے لیکن معاہدے کا یہ مسودہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔
مرکزی مسئلہ مالی امداد کی رقم کا ہے یعنی ترقی پذیر اور ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے کتنی رقم مختص کی جائے۔
تاہم، معاہدے کے مسودے میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ آب و ہوا کے اثرات کے مطابق طریقہ کار اپنانے اور نقصان کی تلافی کرنے کے لیے قرض کے بجائے گرانٹ دی جائے گی، کیونکہ قرض سے غریب ملکوں پر اضافی بوجھ پڑے گاترقی پذیر ملکوں کو ماحولیاتی امداد کے طور پر 1.3 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ تاہم اس پر اختلاف ہے جسے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
افریقی گروپ آف نیگوشیئٹرز کے سربراہ علی محمد نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ معاہدے کو حتمی شکل دینے میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ کون کتنی رقم دے گا۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر لی شو کا کہنا تھا کہ "معاہدے کا مسودہ راستے کی دو انتہاؤں کی نمائندگی کرتا ہے۔” انہوں نے کہا ” مسودے میں ان دونوں کے درمیان شاید کچھ بھی نہیں ہے۔”
آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کو گرم ہوتے معدنیاتی ایندھن سے دور رکھنے میں مدد کرنے اور شمسی توانائی اور ونڈ انرجی جیسی صاف توانائی کی طرف منتقل ہونے کے لیے کم از کم ایک ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی ہم ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور انتہائی موسمی حالات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور خسارے کا ازالہ کرنے کے لائق ہوسکیں گے۔