لندن:میں بڑا حیران ہوں کہ برطانیہ جیسا ملک اب اس قدر مشکلات اورمسائل میں گھرا ہوا ہے کہ اب تو ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ بھائی کا بنے گا ان انگریزوں کا ، یہ کہنا تھا کہ سنیئرصحافی مبشرلقمان کا جو کہ ان دنوں لندن میں موجود ہیں اورجس طرح پاکستان میں سیاستدان ان سے ملاقاتیں کرکے اپنے دکھ درد سناتے ہیں ایسے ہی برطانوی سیاستدان بھی ان سے ملکر برطانیہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پراپنے دکھ درد کی کہانی سناتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت لندن کے ایک مشہور مقام پر موجود ہیں جہاں سخت سردی ہے اورجہاں وہ برطانوی سردی سے نبرد آزما ہیں وہاں وہ برطانیہ کی تازہ ترین مگربگڑتی ہوئی صورت حال سے بھی آگاہ ہیں اور پریشان بھی ہیں، مبشرلقمان کا کہنا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے ، بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ، لوگوں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا ، برطانیہ جیسے ملک میں لوگ زندہ رہنے کیے لیے کھانے پینے کی اشیا حاصل کرنے کے لیے دن کی روشنی میں چیزیںچھین کرلے جارہےہیں ، برطانوی تواس قدر بے بس ہوگئے ہیں کہ اگران کے قریب سے کوئی سبری فروش گزررہا ہےتووہ سبزی فروش سے سبزی چھین لیتےہیں تاکہ وہ کچھ نہ کچھ اپنے اوراپنے بال بچوں کےلیےکھانے کا بندوبست کرلیں ، انکا کہنا تھا کہ ایک پارک میں انکی گاڑی کے شیشے توڑکراس میں سے چیزیں چرانے کی کوشش کی گئی
مبشرلقمان کا کہنا تھا کہ جرائم کی شرح اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب تو پاکستان ہمیں برطانیہ سے محفوظ اور بہتر لگتا ہے ، برطانوی پولیس جرائم پر قابوپانے سے قاصر ہے اوراب تو لوگ ایک دوسرے پر ڈاکے ڈال رہے ہیں ، چوریاںاس قدر بڑھ گئی ہیں کہ برطانوی پولیس بے بس ہوگئی ہے اب تو پنجاب پولیس برطانوی پولیس سے بہتر نظرآتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کئی برطانوی سیاستدانوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اورجب ان سےپوچھا جاتا ہے کہ کیا بنے گا آپ کا اورآپ کے ملک کا تو ان کا جواب ہوتا ہےکہ ہاں ٹھیک ہوجائے گا ، بس جب تک یوکرین کی جنگ کا معاملہ ہے اس وقت تک دباو ہے مبشرلقمان کا کہنا تھا کہ میں نے اہم برطابوی وزیرسے پوچھا کہ آپ کویقین ہے کہ یوکرین کی جنگ ختم ہوجائے گی تواس کا جواب کچھ اثبات میں تھا مگرامید دم توڑ رہی تھیں،مبشرلقمان نے برطانوی وزیراعظم سونک کے حوالے سے بتایا کہ اس کو صرف اس لیے وزارت عظمیٰ پربٹھایا گیا ہےکہ اس نے سیٹ بیلٹ باندھا ہوا تھا ، یہ کوئی بڑی خوبی نہیں مگرایسے لگ رہا ہے کہ انکی بھی چھٹی ہونے والی ہے اور پتہ نہیں ابھی کتنے وزیراعظم آئیں گے اور جائیں گے ،
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا یہ حال ہے کہ دولاکھ سترہزارسے زائد لوگ مسنگ پرسنز ہیں ، ہمارے ملک پاکستان میں صرف 30 ہزار مسنگ پرسنز ہیں جن کے مسئلے کو سرپراٹھایا ہوا ہے پتہ نہیں ان میں سے فیک کتنے ہیں لیکن برطانیہ میں تین لاکھ کے قریب مسنگ پرسنز ہیں مگران کوکوئی پرواہ تک نہیں ، ڈیڑھ سے دولاکھ کے قریب 24 سال سے 35 سال کے درمیان کے برطانوی لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے باہررہنے پرمجبورہیں ،اورنشہ کے عادی ہوچکے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ نشے کے عادی اس وقت ہوتے ہیں جب ان کو کھانے پینے اور رہنے سہنے کے لیے کچھ میسر نہیں گھربار نہیں تو وہ سڑکوں پر آکردکھی زندگی گزارتے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک کا نظام اتنا درہم برہم ہےکہ جو پھنس گیا سوپھنس گیا،مگرہمارے ہاں تو دن اور رات کے کس وقت بھی اگرکوئی جانا چاہے تو آسانی سے سفر کرسکتا ہے ، مگربرطانیہ وہ برطانیہ اب نہیں رہا کہ لوگ اب برطانیہ کی طرف ہجرت کرکے اپنی زندگیاں آسان کرسکیں
ان کا کہنا تھا کہ حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ کوئی اندازہ نہیں کہ کب ٹھیک ہوں گے ، ان کا کہنا تھا کہ جس طرح برطانیہ میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، وارداتیں ہورہی ہیں اگرپاکستان ہوتا توپتہ نہیں کتنا شور ہوچکا ہوتا، ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ اب عربوں کے ہاتھ میں جاتا ہوا نظرآرہا ہے ، قطری اوراماراتی برطانوی کلبز، جائیدادیں خرید رہے ہیں ،ان کاکہنا تھا کہ ان کا موبائل خراب ہوا تووہ ایک مارکیٹ میں موبائل لینے کے لیے پہنچے توپتہ چلا کہ آئی فون جیسے مہنگے فون وہ نہیں رکھ رہے چوری کی وارداتیں ہوتی ہیں اور دوکاندار لٹ جاتے ہیں پھراحساس ہوا کہ پاکستان واقعی جنت ہے