دنیا میں بعض شخصیات ایسی بھی آتی ہیں، جن کی زندگی محض ایک فرد کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ اپنے وجود سے ایک عہد، ایک روحانی روشنی اور ایک فکری توازن کی علامت بن جاتی ہیں۔ایسی ہی جلیل القدر شخصیات میں سے ایک مفتی اعظم سعودی عرب، شیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل الشیخ رحمہ اللہ تھے۔آپ نے دین کی خدمت صرف منبر و محراب سے ہی نہیں کی، بلکہ قلم، تقریر اور تدریس کے ذریعے بھی دین اسلام کا پیغام عام کیا۔ ان کے فتاویٰ، خطبات اور بیانات آج بھی مدارس، جامعات اور مساجد میں زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ ان کی علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ مشکل بات سادگی سے کہنے کا فن انہیں دیگر علما سے ممتاز کرتا تھا۔ان کی تحریروں اور تقاریر میں اعتدال، بصیرت اور حکمت کی جھلک نمایاں تھی۔ انہوں نے ہمیشہ امت کو افتراق کی بجائے اتحاد کی دعوت دی اور فقہی اختلافات کو ایک فکری وسعت سمجھا، نہ کہ نفرت یا تعصب کا ذریعہ۔

شیخ عبد العزیز رحمہ اللہ 1943ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں ہی ان کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی تھی یا انتہاٸی کم ہو گٸ تھی۔عام طور پر یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے لیکن انہوں نے اسے حکم ربی سمجھتے ہوئے قبول کیا اور علم دین کے حصول میں مصروف ہو گئے۔ اللہ تعالی نے انہیں روحانی بصیرت اور ایسا روشن دل و دماغ عطا کیا کہ وہ بڑے بڑے علماء کے استاد بنے اور لاکھوں لوگوں کو دین کی روشنی سے منور کر دیا۔ان کے بارے ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ 10 برس کے تھے،تو ایک بزرگ عالم دین نے ان کے قرآن مجید حفظ کرنے کے شوق کو دیکھ کر کہا مجھے لگ رہا ہے ”یہ لڑکا اگرچہ نابینا ہے مگر اللہ تعالی نے اس کے دل میں ایسا نور رکھا ہے، جو آنکھوں والوں کو بھی نصیب نہیں“۔

شیخ رحمہ اللہ نہایت عاجزی انکساری والے انسان تھے۔ وہ اپنے شاگردوں، مہمانوں، حتیٰ کہ خدام سے بھی محبت و نرمی سے پیش آتے۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کی فلاح کے لیے فکر مند رہتے، ان کے والد اور دادا بھی دین کے خادمین میں شمار ہوتے تھے۔ جنہوں نے ان کی ابتدائی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔شیخ رحمہ اللہ نے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی سعودی عرب میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ خطبہ حج کا فریضہ کئی سالوں تک ان کے سپرد رہا، جسے وہ احسن طریقہ سے ادا کرتے رہے۔ ان کی گفتگو میں وقار، دلیل اور اخلاق کا امتزاج نمایاں ہوتا تھا، جو ہر سننے والے کوبہت متاثر کرتا۔وہ علم کو عبادت اور فتوی کو امانت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی رائے کو صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور سنا جاتا تھا۔
کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک نوجوان نے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ شیخ نے اس کو دعا کے ساتھ مختصر جواب میں فرمایااللہ تعالی تمہیں دین کی خدمت کے لیے چنے گا، دل کو ہمیشہ صاف رکھنا۔ کئی سالوں بعد وہی نوجوان ایک معروف عالم دین بن کر ان کے قدموں میں آ بیٹھا اور کہنے لگاشیخ! آپ کی دعا اور تعبیر نے میری زندگی بدل دی ہے۔
شیخ رحمہ اللہ انتہائی مصروف شخصیت ہونے کے باوجود نماز کو کبھی مؤخر نہیں کرتے تھے۔ ان کے خادموں کا کہنا ہے کہ وہ نماز کے لیے ہر حال میں فوراً کھڑے ہو جاتے، چاہے کتنی ہی اہم میٹنگ یا مہمان موجود ہوتے۔ان کی تلاوت قرآن اور قیام اللیل میں اتنی رقت ہوتی کہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے رونے کی آواز مسجد کے باہر تک سنائی دیتی تھی۔

شیخ رحمہ اللہ اتفاق و اتحاد کے عظیم داعی تھے۔موجودہ دور کی سب سے بڑی آزمائش فرقہ واریت، تعصب اور فکری انتشار ہے۔ ایسے میں انھوں نے ہمیشہ امت کو جوڑنے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا”اختلاف رائے فطری ہے، لیکن دلوں کا فاصلہ شیطانی ہے“۔بین المذاہب مکالمہ ہو یا عالمی اسلامی کانفرنس، انہوں نے ہمیشہ عدل، رواداری اور توحید کو مرکز خطاب بنایا۔

شیخ رحمہ اللہ کے آخری ایام سادگی، عبادت اور خاموشی میں گزرے۔ ان کی صحت کچھ عرصے سے ناساز تھی، مگر کبھی شکوہ زبان پر نہ آیا۔23 ستمبر 2025ء کو سعودی عرب ریاض شہر میں ان کا انتقال ہوا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ان کی نماز جنازہ مسجد امام ترکی بن عبداللہ میں ادا کی گئی۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دنیا بھر کی بڑی مساجد میں غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا اثر و رسوخ صرف ایک ملک تک محدود نہ تھا۔

شیخ عبد العزیز آل الشیخ رحمہ اللہ کی وفات بلاشبہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔وہ چلے گئے، مگر ان کا فہم باقی ہے۔وہ خاموش ہو گئے، مگر ان کی آواز باقی ہے۔وہ مٹی میں جا سوئے، مگر دلوں میں زندہ ہیں،جو ہمیشہ ان کے لیے صدقہ جاریہ رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی حسنات و خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے چھوڑے ہوۓ علمی ورثہ کو امت کے لیے فاٸدہ مند بنا دے۔آمین یارب العالمین

Shares: