مجھے بستر پر لیٹے ہوئے قریب دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ نا ختم ہونے والے خیالات میں گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیوں نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ۔ 3 بج چکے ہیں، صبح آٹھ بجے کالج جانا ہے اور ابھی تک میں نہیں سویا یہ سوچتے ہوئے میں، اس کوشش میں لگ پڑتا ہوں کہ اب میرے اور نیند کے درمیان کچھ حائل نہ ہو۔ لیکن اسی لمحے میری نظروں کے سامنے ایک منظر آجاتاہے ۔
"کچھ لوگ ڈوب رہے ہیں ۔ چیخ و پکار کی آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ اور ڈوبنے والے مجھے واضح دیکھائی دے رہے ہیں ۔ اور اب ایسے لگ رہا ہے کہ مجھے بھی کوئی پانی کی طرف زبردستی لے کر جانا چاہ رہا ہے ۔ اچانک میں خود کو پانی کے بالکل پاس پاتا ہوں ۔ ”
یہ سب دیکھ کر میں بستر سے اٹھ بیٹھتا ہوں اور آوازیں لگانا شروع کر دیتا ہوں” مجھے بچاؤ "۔
دادو! امی کو یہ کہتے ہوئے، مجھ پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکنا شروع کر دیتی ہیں کہ "سوئے ہوئے ڈر گیا ہے”۔ حالانکہ میں سویا ہی نہیں تھا ابھی۔ میرے بتانے پر وہ ماننے سے انکار کر دیتی ہیں کہ میں ابھی سویا ہی نہیں تھا ۔ ناجانے کب آنکھ لگی اور میں سو گیا ۔
اگلے دن دوپہر کے وقت کھیلتے ہوئے مجھے کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ شاید مجھے کوئی دوست بلا رہا تھا ۔ دیکھنے گیا تو کوئی نظر نہ آیا مگر آوازیں اب بھی آرہی تھیں ۔ کل رات کا واقعہ اور دوپہر کی یہ واردات ۔۔۔۔ اب محلے میں زبان زدِ عام ہونے لگی۔
معالج کے پاس لے کر جانے کا معاملہ آیا تو بیشتر بزرگوں کی طرف سے یہ کہتے ہوئے رکاوٹ کا سامنا ہوا کہ۔ ” نظر نہیں آرہا یہ بیمار نہیں ہے ، کوئی کلموہی! کسی بابے کے ذریعے کروا رہی ہے”۔
ہم ایک بابا جی کے پاس گئے ۔ جنھوں نے سب سے پہلے کلمہ پڑھوایا جیسے ہم کوئی کافر ہوں، اور جیسے ہی میں نے کلمہ پڑھا ۔ بابا جی ایسے خوش ہوئے جیسے کسی غیر مسلم کو مسلم کر لیا ہو۔
ماما پھلا اچھا خاصا نفسیاتی بندہ ہے، علم نفسیات کی سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے، ساری کہانی اطمینان سے سننے کے بعد بولا! "شیزوفرینیا”( یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ جس شرح مرد و خواتین میں برابر ہے۔ پندرہ برس کے بعد اس بیماری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ جب کے پندرہ سال کے کم عمر افراد میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے ۔ اس بیماری کی کئی علامات ہیں ۔ مثلاً کسی چیز کی غیر موجودگی میں اس کا نظر آنا، اکیلے میں آوازیں سنائی دینا وغیرہ) کے مریض تمہیں تو بس ایک معالج کی ضرورت ہے ۔ اور جن نکالنے والے بابوں کو پورے ہسپتال کی۔
خیر کہانی کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔ قصہ مختصر کہ جن تو بابا جی بھی نہ نکال پائے ۔ کیونکہ جہالت جیسا جن نکلنے میں صدیاں لگتی ہیں ۔