مجھے جتنی گالیاں دینی ہیں دے دو،لیکن خدارا یہ کام کرو….وزیراعلیٰ سندھ پھٹ پڑے
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں کرونا کے 1452 مریض ہو چکے ہیں ، صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد 419 ہے، 24 گھنٹوں میں 30 لوگ صحتیاب ہوئے، سندھ میں 31 اموات ہو چکی ہیں،

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس میرا یا آپ کا ،سندھ کا بلکہ پاکستان کا بھی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی وبا ہے اس میں جو بھی غلطی کرے گا متاثر ہوگا، ہم اکیلے بیٹھ کر اپنے فیصلے نہیں کر سکتے، اگر فیصلوں‌ پر عمل نہیں ہو گا تو نقصان ہو گا،پہلے دن سے ہی سماجی فاصلے کا کہا تھال 26 فروری کو سندھ میں پہلا کیس آیا تھا ہم نے اگلی صبح ایک میٹنگ کر کے ٹاسک فورس بنائی جس میں پرائیویٹ سیکٹرسمیت تمام اداروں سے لوگ شامل تھے، ہمیں اس حوالہ سے کوئی تجربہ نہیں تھا، جو ہمارے ماہرین ہیں ان کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا ہم دنیا کی غلطیوں اور کامیابیوں کو دیکھ کر آگے بڑھ سکتے ہیں

ہمارے اوپر الزام ہے کہ سوچے سمجھے بغیر لاک ڈاؤن کیا، ایسا نہیں ہے ہم نے صحیح فیصلہ کیا، جس سپیڈ سے ہم چلنا چاہ رہے تھے چل رہے ہیں.، غلطیاں بھی ہوں گی، لاک ڈاؤن کا فیصلہ درست تھا، سب سے ملکر مشورہ کر کے لاک ڈاؤن کیا تھا، سکول پہلے دو دن پھر دو ہفتوں کے لئے بند کئے، شاپنگ سنٹر، ٹرانسپورٹ، آہستہ آہستہ بند کیا، ایسا نہیں کہ ایک دم اعلان کر دیا، ہم شہریا صوبے میں ہنگامہ نہیں چاہتے تھے، ہم سب غلطیاں کریں گے، سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم کچھ نہ کریں، 13 مارچ کو ایک میٹنگ اسلام آباد میں ہوئی، میں نے تجویز دی تھی کہ اس کو ویڈیو کانفرنس کریں لیکن نہیں مانا گیا اسلئے میں اس میں گیا، میٹنگ میں سندھ کا پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا اسوقت سندھ میں 28 مریض تھے، اور ایک موت ہوئی تھی، میں نے کہا تھا کہ جب میٹنگ شروع ہوئی اور جب ختم ہوئی اس دورانیے میں دس ہزار مریضوں کا دنیا میں اضافہ ہوا تھا، میں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا چاہئے،میری رائے غلط ہو سکتی تھی لیکن اگر اس دن ہم لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیتے تو آج صورتحال بہتر کر دیتے.

وزیراعلیٰ سندھ کا مزید کہنا تھا کہ اگر لاک ڈاؤن ختم کرتے ہیں تو بھی نقصان اور اگر بڑھاتے ہیں تو بھی نقصان، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا، میٹنگ میں میری رائے کو مناسب نہیں سمجھا گیا، کوئی صوبہ اکیلے فیصلہ نہیں کر سکتا، قومی لیول پر ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں.یا پھر یہ کہہ دیا جائے کہ ہر صوبہ اپنی مرضی سے کرے، 13 مارچ تک ہم کافی کام کر چکے تھے، 21 مارچ کو ہم سیاسی پارٹیوں سے ملے،اس وائرس سے لڑنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے، سماجی فاصلہ، ہاتھ دھوئیں، بغیر ضرورت کے گھروں سے باہر نہ نکلیں، باقی صوبوں نے بھی ہماری بات کو مانا ،یہ کام اکیلا نہیں ہو سکتا، وفاقی حکومت کا شکر گزار ہوں کہ کافی میٹنگز ہو چکی ہیں، وزیر اعظم صاحب کے ساتھ میٹنگز ہوتی ہیں جس میں مشورے دیتا ہوں، میں نے مشورہ دیا تھا کہ لاک ڈاؤن کو مزید 2 ہفتے بڑھایا جائے اور مزید سخت کیا جائے تا کہ مثبت نتائج سامنے آئیں ،جب وفاقی حکومت نے 14 اپریل تک لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو مجھے خوشی ہوئی،

وزیراعلیٰ سندھ کا مزید کہنا تھا کہ کچھ صوبوں نے اپنے فیصلے کئے تو جب میں نے بات کی تو کہا گیا کہ ہر صوبوں کی اپنی مرضی ہے، اس چیز کو بھی ہضم کیا، کوشش کر رہے ہیں کہ قومی سطح پر ہم ملکر مقابلہ کریں گے، 25 مارچ کو وزیراعظم کو خط لکھا تھا جس میں صوبے کی ضروریات کا بتایا گیا تھا ، 13 مارچ کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے ایک لسٹ وفاقی حکومت کو بھیجی تھی، ابھی تک اس تعداد میں نہیں آئیں جس میں ہمیں ضرورت تھی، ہم ایک چیز کہتے دوسرے صوبے میں کچھ اور ہوجاتا جس کی وجہ سے لوگ پریشان تھے، وفاق نے بھی کچھ نہ کیا،

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف ہمیں برا بھلا کہا جا رہا ہے مجھے جتنی گالیاں دینی ہیں دل کھول کر دیں لیکن خدارا اکٹھے ہوں، ایک ہو کر چلیں، ایک صوبے میں کرونا ایڈوائیزری بورڈ نے دو ہفتے کے لئے لاک ڈاؤن میں توسیع کا کہا ہے، ہمیں اس بارے میں نہیں بتایا گیا، لاک ڈاؤن کے مسائل ہیں لیکن ملکر فیصلے کرنے ہوں گے.ریلیف ایشوز پر کام جاری ہیں، راشن تقسیم کیا لیکن اس میں مسائل سامنے آئے،سب فلاحی تنظٍیموں سے اجلاس کئے ہیں، مشکلات نظر آئیں، کیش ٹرانسفر کرنے کا سوچا اس میں بھی لوگوں کے جمع ہونے کا اندیشہ تھا، ہمیں اداروں سے ڈیٹا نہ ملا، وفاقی حکومت اپنا پروگرام لے آئی ہم بتاتے رہے کہ وفاقی حکومت کے پروگرام سے مشکلات کا سامنا ہے،یہ طریقہ کار مناسب نہیں، کیش دینا ہے تو لوگوں کا رش ہو جاتا ہے، لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ پھر، لاک ڈاؤن ہی ختم کر دیں، مجھے اس سائنس کی کوئی سمجھ نہیں آئی، وفاقی حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہ کام صوبائی حکومت بھی کر سکتی تھی لیکن ہم نے احتیاط نہیں کی. اگر کسی رشتے دار کو کرونا ہو جائے تو اسے ملنے نہیں جائیں گے،ہم عوام سے اپیل کر رہے ہیں لیکن کوئی سمجھ نہیں آ رہی، زندگی سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں، معیشت تباہ ہو رہی ہے لیکن معیشت سے زیادہ زندگی اہم ہے.

Shares: