ملک میں اندھا قانون،غداری کے الزامات سستے،ذمہ داروں پر مقدمہ درج کرواؤنگا، عدالت برہم

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں شہری کی نظربندی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی

عدالت نے سماعت ایک بجے دوپہر تک ملتوی کر دی ۔عدالت نے ڈی سی لاہور سے وضاحت طلب کر لی۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی مقدمہ کو عدالت ختم کر دے تو اسکے بعد نظر بندی کی کیا حیثیت رہ جائے گی ۔ کیوں نہ آپکے غیر قانونی اقدام پر اپکے خلاف مقدمہ درج کروا دیا جائے ۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواستگزار کے خلاف 11 مقدمات ہیں درخواستگزار کا چال چلن درست نہیں، ۔یہ شرارتی آدمی ہے ۔جس پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی ار درج ہونے کے بعد مقدمہ سے بری ہو جائے تو کس قانون کے تحت نظر بندی ہو سکتی ہے ۔ میں ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرواں گا ۔یہ ملک میں اندھا قانون ہے جسکو حکومت دانستہ چلا رہی ہے ۔

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں غداری اور دیگرالزامات اتنے سستے کر دیئے ہیں کہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں کے خلاف مقدمہ درج کر دو۔ڈی سی لاہور سے پوچھ لیں کہ وہ کیا چاہتا ہے کیون نہ ڈی سی کے خلاف مقدمہ در کروا دوں ۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم نظر بندی کے احکامات واپس لیتے ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ کسی شہری کی آزادی اس طرح سلب کی اجازت نہین دیں گے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے درخواست پر سماعت کی ،درخواست گزار کی جانب سے حناء جیلانی ایڈوکیٹ سمیت دیگر وکلاء پیش ہوئے،درخواست میں وفاقی حکومت ،،ڈپٹی کمشنر لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کو نقص امن عامہ کا خدشہ ظاہر کرنے کی بنیاد پر ایک ماہ کے لئے نظر بند کیا گیا ہے ۔ڈپٹی کمشنر کے پاس ایسا کوئی مواد نہیں جیسے ظاہر ہو کہ درخواست گزار نقص امن عامہ کا باعث بن سکتا یے۔ درخواست گزار کسی تشدد یا ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی میں ملوث نہیں ۔عدالت ڈپٹی کمشنر کی جانب سے درخواست گزار کو نظر بند کرنے کا اقدام کالعدم قرار دے ۔

Shares: