1970 کی دہائی کا ممبئی — ایک شہر جو تیزی سے ترقی کر رہا تھا، لیکن اس کی چمکتی دمکتی روشنیوں کے پیچھے ایک تاریک حقیقت چھپی ہوئی تھی۔ فاک لینڈ روڈ، شہر کا بدنام زمانہ ریڈ لائٹ ایریا، جہاں کی زندگی روزانہ کی تذلیل، استحصال اور بقا کی جدوجہد سے جڑی ہوئی تھی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں امریکی فوٹوگرافر میری ایلن مارک نے انسانی درد، رشتوں اور بقا کی داستانوں کو اپنے کیمرے میں قید کیا۔میری ایلن مارک، جو اپنی ہمدرد فوٹو جرنلزم کے لیے مشہور تھیں، فاک لینڈ روڈ کے مناظر کو کیمرے میں قید کرنے کی کئی بار کوشش کر چکی تھیں، لیکن ہر بار انہیں دھتکار دیا گیا۔ 1981 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب Falkland Road: Prostitutes of Bombay کے مقدمے میں وہ لکھتی ہیں:

"عورتیں مجھ پر پانی پھینکتی تھیں، کوڑا کرکٹ مارتی تھیں، مرد ہجوم بنا لیتے، کسی نے میرا ایڈریس بُک چوری کر لیا، ایک دفعہ تو ایک نشے میں دھت شخص نے میرے چہرے پر مکا مار دیا۔”

لیکن ان کی مستقل مزاجی رنگ لائی۔ 1978 میں ایک جرمن میگزین GEO کے لیے کام کرتے ہوئے وہ چھ ہفتے فاک لینڈ روڈ پر رہیں — اسی بار وہ اپنے کیمرے سے وہ سب دکھانے میں کامیاب ہوئیں جو دنیا نے شاید پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔

مارک کی تصویری کتاب "فاک لینڈ روڈ: بمبئی کی طوائفیں” جو 1981 میں پہلی بار شائع ہوئی، اب دوبارہ منظرِ عام پر آئی ہے جس میں 70 سے زائد تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ یہ تصاویر صرف جسم فروشی کے پیشے کی عکاسی نہیں کرتیں، بلکہ ان خواتین کی اصل زندگی، رشتوں، اور خوابوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔

ایک دنیا جو سماج سے کٹی ہوئی تھی، لیکن اپنے اندر ایک خاندان جیسی قربت لیے ہوئے تھی،فاک لینڈ روڈ کی عورتیں اکثر بے گھر، یتیم یا سماج سے کٹی ہوئی تھیں۔ میری ان کے لیے ایک اجنبی تھیں، لیکن ایک اجنبی جو ان کے جیسی تھی — تنہا، آزاد اور ایک دکھ میں شریک۔ ایک "مادام” نے میری سے کہا،”ہم بہنیں ہیں، تم اور میں۔ ہم ایک جیسے نصیب والی عورتیں ہیں۔ ہر رات میں دعا پڑھ کر سوتی ہوں، تنہا۔”

ان عورتوں نے، جن میں نیپالی، بنگالی، مراٹھی اور دیگر علاقوں کی لڑکیاں شامل تھیں، اپنے لیے ایک خاندان خود تشکیل دیا تھا۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ایک ساتھ چائے پینا، گانے سننا، بچوں کی پرورش کرنا — یہ سب زندگی کے وہ پہلو تھے جو شاید باہر کی دنیا نے کبھی ان سے جوڑے ہی نہیں۔

عاشہ، امتیاز، اوشا اور چمپا: مارک کے کیمرے کی روشنی میں جیتے ہوئے کردار
میری کے ساتھ ابتدا میں جو لڑکیاں جڑیں، ان میں عاشہ اور ممتا (17 سال کی) اور اوشا (15 سال کی) شامل تھیں۔ عاشہ، ایک خوبصورت لڑکی، جس کا دوست ایک چور تھا، اکثر جیل میں رہتا تھا۔ عاشہ کے پاس خواب تھے، لیکن زندگی نے اسے ان خوابوں کے برعکس راستے پر ڈال دیا تھا۔ وہ نوکرانی بننے کا خواب دیکھتی تھی، لیکن سماج اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔

چمپا، ایک خواجہ سرا مادام، میری کی قریبی دوست بنی۔ چمپا نے میری کو اپنی دنیا دکھائی — جہاں خواجہ سرا عورتیں رات کے لیے تیار ہو رہی تھیں، میک اپ کر رہی تھیں، اپنی پہچان کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔

"پنجرے کی لڑکیاں” — ایک اور سطح کا استحصال
فاک لینڈ روڈ پر سب سے زیادہ مظلوم وہ لڑکیاں تھیں جو "کیجز” میں قید رہتی تھیں — سڑک کے کنارے چھوٹے کمروں میں جہاں ان کے جسم کو کھڑکیوں سے دیکھ کر گاہک بلائے جاتے۔ وہ دوسری طوائفوں کی نظر میں بھی کمتر سمجھی جاتی تھیں۔ وہ چیختی، ہنستی، فحش اشارے کرتی تھیں، لیکن اندر سے وہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔

فوٹوگرافی یا استحصال؟
میری کو ہمیشہ یہ سوال ستاتا رہا: کیا وہ ان خواتین کے درد کو "فن” کے نام پر بیچ رہی ہیں؟ 1987 میں نیویارک ٹائمز میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا،”ان لوگوں نے مجھے ایک ناقابل یقین تحفہ دیا ہے۔ ہم فوٹوگرافر ان لوگوں سے کچھ لے کر آتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، ہم سب میں ایک طرح کی بے شرمی ہوتی ہے۔”تاہم، ان کا ماننا تھا کہ اگر یہ کہانیاں نہ سنائی جائیں، تو یہ لوگ ہمیشہ غیرمرئی رہیں گے۔ ان کا کیمرہ ان کو وہ پہچان دیتا تھا جو دنیا نے ان سے چھین لی تھی۔”میں نے کبھی کسی کی تصویر اس کی اجازت کے بغیر نہیں کھینچی۔ وہ اکثر خوشی خوشی پوز دیتی تھیں، شاید اس لیے کہ وہ چاہتی تھیں کہ انہیں آخرکار دیکھا جائے۔”ان کی تصاویر آج بھی ایک ایسا سوال چھوڑ جاتی ہیں جو شاید ہمیشہ قائم رہے گا”کیا دستاویزی فوٹوگرافر اپنے فن کے لیے محروم طبقات کا استحصال کرتے ہیں؟”

آخری دن، آخری چائے، اور آنسوؤں کا الوداع
چھ ہفتوں کے بعد جب میری واپس جانے لگی، تو فاک لینڈ روڈ کی عورتوں نے اسے گلے لگا کر رخصت کیا۔ عاشہ نے اسے روتا دیکھ کر کہا”تمہیں رونا نہیں چاہیے۔ تمہیں فخر سے سر اٹھا کر رخصت ہونا چاہیے۔”چمپا دوڑتی ہوئی آئی اور بولی، "امریکہ سے میرے لیے وِگ (نقلی بال) بھیجنا، بہن۔ جب بھی پہنوں گی، تمہیں یاد کروں گی۔”

آج کا فاک لینڈ روڈ، ایک بدلا ہوا منظر
آج، فاک لینڈ روڈ اب بھی موجود ہے، لیکن دنیا بدل چکی ہے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا کی طاقت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ اب وہ معصومیت، وہ کھلا پن نہیں رہا۔ میری نے 2005 میں لکھا،”آج کوئی میگزین ‘فاک لینڈ روڈ’ جیسا پراجیکٹ اسپانسر نہیں کرے گا۔ اب صرف جنگ، آفات اور شہرت کی تصویریں دیکھی جاتی ہیں۔”

میری ایلن مارک کی تصاویر نہ صرف ایک وقت کی داستان سناتی ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہیں کہ انسانیت، درد، رشتہ اور ہمدردی کہاں کہاں پنپ سکتی ہے — حتیٰ کہ فاک لینڈ روڈ جیسے مقام پر بھی۔

Shares: