منشی نول کشور:ہندوستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے کے بانی مالک
منشی نول کشور
ہندوستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے کے بانی مالک
یوم پیدائش : 3 جنوری 1836
منشی نول صاحب کی پیدائش 03؍جنوری 1836ء کو متھرا اتر پردیش ہندوستان میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز مکتب میں فارسی اور اردو پڑھ کر کیا تھا۔ منشی نول کشور ایک کتاب پبلشر تھے۔ انہیں بھارت کا کیکسٹون کہا جاتا ہے۔ 1858ء میں، 22 سال کی عمر میں، انہوں نے ‘نول کشور پریس اور کتاب ڈپو’ لکھنؤ میں قائم کیا تھا۔ آج یہ ادارہ ایشیا میں سب سے پرانی پرنٹنگ اور اشاعت کا مرکز ہے۔ مرزا غالب منشی نول کشور کے وفادار دوست تھے۔ منشی نول کشور کے والد کا نام پنڈت جمونا پرساد بھگاوکا تھا، آپ کے والد علی گڑھ کے زمیندار تھے 1970ء میں ہندوستان کی حکومت نے ان پر اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
منشی نول کشورکی نوجوانی کے زمانے میں لاہور سے اخبار ‘کوہِ نور’ نکلتا تھا جس میں آپ کے مضامین شائع ہونے لگے، جو اس قدر مقبول ہوئے کہ اس کے مدیر منشی ہرسُکھ رائے نے انھیں لاہور آ کر اخبار میں کام کرنے کی دعوت دی جو نول کشور نے قبول کر لی۔1857ء کے ملک گیر فسادات شروع ہو چکے تھے، جن میں دوران میں امرا و روسا کے صدیوں پرانے کتب خانوں میں موجود ہزاروں نادر مخطوطے تلف ہو گئے۔ 21 سالہ نول کشور نے تمام صورتِ حال کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور انھیں ہم وطنوں کی حالت سدھارنے کا ایک کارگر طریقہ سوجھ گیا۔ آپ نے چند مذہبی رسائل اور بچوں کے قاعدے چھاپے اور انھیں خود ہی بیچنا شروع کیا۔ وہ خود اپنے کندھوں پر طبع شدہ مواد کے گٹھڑ اٹھا کر بازار اور دفاتر تک لے جاتے تھے۔ انگریزوں کو ان کی لگن پسند آئی اور انھیں دفتری سٹیشنری کے ٹھیکے ملنے لگے۔ 26 نومبر 1858ء میں انھوں نے ’اودھ اخبار‘ کا اجرا کیا جو بڑے سائز کے چار صفحات پر مبنی ہوتا تھا۔
#داستانامیرحمزہ
اس سلسلے میں غالباً ان کے پریس کا سب سے بڑا کارنامہ داستانِ امیر حمزہ کی 46 جلدوں کی اشاعت ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی داستان کہا جاتا ہے۔
دیگر کتب کی اشاعت
ہندو ہونے کے باوجود منشی نول کشور نے کئی اہم اسلامی کتابیں، قرآن کی تفاسیر، احادیث کے مجموعے اور فقہ کی کتابیں شائع کیں۔ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ سے 1858ء سے 1950ء تک 6000 سے زیادہ کتابیں شائع ہوئی۔ 1950ء میں منشی نول کشور کا پریس خاندانی جھگروں کی بنا پر بند ہو گیا۔
نول کشور پریس کی طبع شدہ کتابوں کے چند نام ۔
فتاویٰ عالمگیری
سنن ابی داؤد
سنن ابن ماجہ
مثنوی مولانا روم
قصائدِ عرفی
تاریخِ طبری
تاریخِ فرشتہ
دیوانِ امیر خسرو
مراثی انیس
فسانۂ آزاد
داستانِ امیر حمزہ
دیوانِ غالب
کلیاتِ غالب فارسی
الف لیلہ
آثار الصنادید (سر سید احمد خان)
قاطعِ ب رہان (غالب)،
آرائشِ محفل
دیوانِ بیدل
گیتا کا اردو ترجمہ
رامائن کا اردو ترجمہ
بوستان
اور دیگر کئی صد کتابیں ہیں۔
غالب سے دوستی
منشی صاحب کے ساتھ جن لوگوں نے اس اخبار میں کام کیا ان میں رتن ناتھ سرشار، عبد الحلیم شرر، قدر بلگرامی، منشی امیر اللہ تسلیم اور دوسرے مشاہیرِ اردو شامل ہیں۔ اس اخبار میں جن لوگوں کے مضامین چھپتے تھے ان میں مرزا غالب اور سر سید احمد خان بھی شامل ہیں۔ سرشار کا شاہکار ’فسانۂ آزاد‘ اسی اخبار میں دسمبر 1878ء سے دسمبر 1879ی تک قسط وار چھپتا رہا۔ غالب منشی صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ وہ نول کشور پریس کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں: ‘اس چھاپہ خانے نے جس کا بھی دیوان چھاپا، اس کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔’ غالب منشی صاحب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے سے دریغ نہیں کرتے، چنانچہ ایک اور خط میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘خالق نے اسے زہرہ کی صورت اور مشتری کی سیرت عطا کی ہے۔’ غالب کے دوست قدر بلگرامی جب مالی مشکلات کا شکار ہوئے تو غالب نے انھیں خط میں لکھا کہ جا کر لکھنؤ میں میرے دوست سے ملو، تمھارا کام ہو جائے گا۔
منشی نول کشور 19؍فروری 1895ء کو دہلی میں انتقال کر گئے۔