لاہور کی مقامی عدالت نے مبینہ طور پر ’قابلِ اعتراض‘ نجی پارٹی منعقد کرنے پر گرفتار خواجہ سراؤں کے خلاف درج مقدمہ کو خارج کر دیا
ڈان نیوز کے مطابق عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ریکارڈ پر ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جو ملزمان کو مبینہ جرائم کے ارتکاب سے منسلک کریں، لہٰذا گرفتار ملزمان کے خلاف مقدمے کو خارج کیا جاتا ہے، حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کو مسترد اور عدالت میں موجود ملزمان کو اس مقدمے سے بری کیا جاتا ہے،عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ چھاپے کے دوران کوئی نجی گواہ شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کا بیان قلمبند کیا گیا۔ مزید برآں، نجی جگہ پر چھاپہ مارنے کا اجازت نامہ بھی ریکارڈ کے ساتھ منسلک نہیں، بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ ملزمان کو جعلی اور گھڑی ہوئی باتوں کی بنیاد پر مقدمے میں شامل کیا گیا۔ملزمان کے وکیل حیدر بٹ نے خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ تمام گرفتار افراد کو رہا اور ان کے خلاف درج مقدمہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
قبل ازیں، پنجاب پولیس نے لاہور میں منعقدہ قابل اعتراض نجی پارٹی کے دوران فحاشی کو فروغ دینے کے الزام پر متعدد خواجہ سراؤں کو گرفتار کیا تھا،واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق پنجاب حکومت نے ان گرفتاریوں کا حکم اُس وقت دیا جب نجی پارٹی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں، گردش کرنے والی ویڈیوز میں 50 سے 60 افراد کو دیکھا جا سکتا ہے جن میں خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔
فیشن ڈیزائنر ماریا بی نے سب سے پہلے یہ ویڈیوز اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کیں اور ایسی تقریبات کو ملک کی اخلاقی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے ویڈیوز میں نظر آنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق یکم اگست کو سامنے آنے والی ویڈیوز میں فحش مواد موجود ہے، جس کے باعث عوامی ردعمل سامنے آیا اور پولیس نے فوری کارروائی کی،یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نصیر آباد پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جس میں 50 سے 60 خواجہ سراؤں کے گروہ کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 292 (فحش مواد کی فروخت)، 292-اے (فحش مواد کی اشاعت/تشہیر) اور 294 (عوامی مقامات پر فحش حرکات) کے تحت، نیز ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت نامزد کیا گیا ہے۔
گرفتاریوں کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (آپریشنز) لاہور فیصل کامران نے کہا کہ پارٹی یا فوٹوشوٹ کے نام پر فحاشی پھیلانا سنگین قانونی جرم ہے، غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات کسی صورت برداشت نہیں کی جائیں گی، واقعے میں ملوث تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔فیصل کامران نے مزید بتایا کہ ممنوعہ فلم جوائے لینڈ کی اسکریننگ بھی شہر میں روک دی گئی، جس میں ایک خواجہ سرا کی محبت کی کہانی دکھائی گئی ہے، اسلام اور قانون کے منافی کسی بھی سرگرمی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔یہ فلم تقریباً 2 سال بعد لاہور میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی لیکن اسے سنیما کی بجائے متبادل مقام پر دکھانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
اس پیشرفت پر اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا ایکٹوسٹ نایاب علی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر لکھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے افراد نہ تو خواجہ سرا ایکٹوسٹس ہیں اور نہ ہی ان کا ہمارے حقوق کی تحریک سے کوئی تعلق ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ ویڈیو ایک نجی پارٹی میں بنائی گئی تھی اور یہ ویڈیوز اُس وقت وائرل ہوئی جب ماریا بی نے اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، اگر یہ فحاشی ہے تو پھر اسے لاکھوں لوگوں تک کس نے پہنچایا؟ ماریا بی نے، یہ خود ایک جرم ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اخلاقیات سے متعلق قوانین کے ممکنہ غلط استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ایک قانونی ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگرچہ فحاشی کے قوانین موجود ہیں لیکن ان کی مبہم زبان اکثر من مانے اطلاق کا باعث بنتی ہے، جس کا نشانہ زیادہ تر پسماندہ طبقات بنتے ہیں۔حکومتی حکام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ صوبے بھر میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید بڑھایا جائے گا۔
واضح رہے کہ 16 اگست کو مقبول فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے ٹرانس جینڈرز کی نامناسب ڈانس پارٹی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ پارٹی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں منعقد ہوئی۔ماریہ بی نے انسٹاگرام پر مختصر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اگست میں ہی لاہور میں ٹرانس جینڈرز کی نامناسب ڈانس پارٹی منعقد کی گئی، جس میں شیطانی نشانات اور علامات کی بھی تشہیر کی گئی۔ ماریہ بی کے مطابق انہیں مذکورہ ویڈیوز بعض نوجوان اور کم عمر بچوں نے بھیجی، جو مذکورہ پارٹی میں گئے تھے لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہاں ایسا کچھ ہوگا،ماریہ بی کا کہنا تھا کہ لاہور میں ہونے والی ٹرانس جینڈرز کی پارٹی میں اسٹیج پر جاکر فحش پرفارمنس بھی کی گئی جب کہ اس میں شیطانی علامات اور نشانات کی بھی تشہیر کی گئی۔