مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

faiz

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض احمد فیض.20 نومبر 1984: یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیض کی شاعرانہ قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے ساتھ لیا جاتا ہے ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں،اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے فیض 13/فروری 1912ء کو پنجاب کے ضلع نارووال کی اک چھوٹی سی بستی کالاقادر (اب فیض نگر) کے اک فارغ البال علمی گھرانے میں پیداہوئے ان کے والد محمد سلطان خاں بیرسٹر تھے فیض کی ابتدائی تعلیم مشرقی انداز میں شروع ہوئی اور انھوں نے قرآن کے دو پارے بھی حفظ کئے پھر عربی فارسی کے ساتھ انگریزی تعلیم پر بھی توجہ دی گئی فیض نے عربی اور انگریزی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم فلسفہ اور انگریزی ان کے خاص مضامین تھے اس کالج میں ان کو احمد شاہ بخاری "پطرس” اور صوفی غلام مصطفی تبسم جیسے استاد اور مربی ملے تعلیم سے فارغ ہو کر 1935ء میں فیض نے امرتسر کے محمڈن اورینٹل کالج میں بطورلیکچرر ملازمت کر لی یہاں بھی انھیں اہم ادیبوں اور دانشوروں کی صحبت ملی جن میں محمد دین تاثیر، صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں سجّاد ظہیراور احمد علی جیسے لوگ شامل تھے 1941ء میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کر لی یہ تاثیر کی اہلیہ کی چھوٹی بہن تھیں جو 16 سال کی عمر سے برطانوی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھیں۔شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں تاثیر کے مکان پر منعقد ہوئی نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا مجاز اور جوش ملیح آبادی نے تقریب میں شرکت کی,1977ء جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو فیضٓ کے لئے پاکستان میں رہنا ناممکن ہوگیا ان کی سخت نگرانی کی جا رہی تھی اور کڑا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا ایک دن وہ ہاتھ میں سگرٹ تھام کر گھر سے یوں نکلے جیسے چہل قدمی کے لئے جا رہے ہوں اور سیدھے بیروت پہنچ گئے اس وقت فلسطینی تنظیم آزادی کا مرکز بیروت میں تھا اور یاسر عرفات سے ان کا یارانہ تھا بیروت میں وہ سوویت امداد یافتہ رسالہ "لوٹس” کے مدیر بنا دئے گئے 1982ء میں ، خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض پاکستان واپس آ گئے وہ دمہ اور لو بلڈ پریشر کے مریض تھے 1964ء میں انھیں ادب کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا لیکن کسی فیصلہ سے پہلے 20/نومبر 1984ء کو ان کا انتقال ہوگیا فیض مجموعی طور پر اک عام ادیب و شاعر سے بہتر زندگی گزاری وہ ہمیشہ لوگوں کی محبت میں گھرے رہے وہ جہاں جاتے لوگ ان سے دیوانہ وار پیار کرتے اپنی ادبی خدمات کے لئے فیض کو بین الاقوامی سطح پر جتنا سراہا اورنوازا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی 1962ء میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذوقطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا 1976ء میں ان کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ”نشان امتیاز” سے نوازا پھر 2011ء کو ” فیض کا سال” قرار دیا فیضٓ کی تصانیف میں نقش فریادی ،دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ،سر وادی ٔسینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثر میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں انھوں نے دو پاکستانی فلموں جاگو سویرا اور دور ہے سکھ کا گاؤں کے لئے گیت بھی لکھے اور ہندوستانی پروڈیوسر ڈایرکٹر ایکٹر منوج کمار نے ان کی ایک غزل کو اپنی فلم "پینٹر بابو” میں 1989ء میں شامل کیا جس کو فیضٓ صاحب نے منوج کمار کو دوستی میں بطور تحفہ لکھ کردی تھیں ، فیضٓ احمد فیضٓ اور ایلس کی مشترکہ تخلیقات میں ان کی دو بیٹیاں سلیمہ اور منیزہ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
۔۔۔۔۔۔۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
۔۔۔۔۔۔۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
۔۔۔۔۔۔۔
یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم
ترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریم
۔۔۔۔۔۔۔
جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی
۔۔۔۔۔۔۔
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں
دل ٹھہرے تو درد سنائیں درد تھمے تو بات کریں
۔۔۔۔۔۔۔
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
۔۔۔۔۔۔۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش ، ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Comments are closed.