مشاہد حسین نےترکیہ میں ’’عالمی فلسطین کانفرنس‘‘ میں 3 نکاتی ایکشن پلان پیش کردیا

امریکی صدارتی انتخابات کے فوراً بعد وہاں جاکر نو منتخب صدر سے ملاقات کریں
tukey pak

انقرہ: سینیٹر مشاہد حسین سید نے ’’عالمی فلسطین کانفرنس‘‘ میں شرکت کی، اور 3 نکاتی ایکشن پلان پیش کردیا۔

باغی ٹی وی : رپورٹس کے مطابق ترک صدر طیب اردوان کی جماعت ’اے کے پارٹی‘ کی دعوت پر مشاہد حسین سید نے ’’عالمی فلسطین کانفرنس‘‘ میں شرکت کی، سینیٹر مشاہد حسین سید جو استنبول میں قائم ‘القدس پارلیمنٹ’ کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن اورانٹرنیشنل کانفرنس آف ایشین پولیٹیکل پارٹیز (ICAPP) کے شریک چیئرمین بھی ہیں نے ترک صدر طیب پر زور دیا کہ وہ فلسطین کے معاملے پر قیادت اور رہنمائی کریں۔

مشاہد حسین سید نے فلسطینیوں کی حمایت میں حماس، حزب اللہ اور ایران کی اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کو سراہا اور صیہونی ریاست کے توسیع پسندانہ رویہ پر کڑی تنقید کی اور ترک صدر کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے انہیں ’مسلم دنیا کا شیر‘ قرار دیا اور صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی۔

سینیٹر مشاہد حسین نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف دہرے معیارات رکھنے اور اخلاقی روایات نہ نبھانے پر مغربی ممالک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک جنگی جرائم میں اسرائیل کی مدد اور حوصلہ افزائی کے مرتکب ہو رہے ہیں، زیادہ تر مسلم حکومتیں بھی خوف یا مصلحت کے باعث اسرائیلی جارحیت اور فلسطین کی حمایت میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

اسرائیل کے ایران کے خلاف ممکنہ جوابی حملے کی انتہائی خفیہ معلومات لیک

فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے مشاہد حسین سید نے سہ جہتی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اوّل یہ کہ ترک صدر کو اس معاملے پر قیادت کرنی چاہیے اور ایک وفد تشکیل دیں جس میں پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا سمیت گلوبل ساؤتھ کے رہنما شامل ہوں، یہ وفد 5 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے فوراً بعد وہاں جاکر نو منتخب صدر سے ملاقات کریں اور اسرائیل کی حمایت کی یک طرفہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر زور دیں۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ مسلم قائدین کو اب باتوں سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ترکیہ، پاکستان اور انڈونیشیا کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اجازت ملنے کے بعد غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے امن اور انسانی امداد کے لیے ایک مشترکہ نیول فلوٹیلا تشکیل دیں، اس بحری اتحاد کے ذریعے غزہ میں محصور فلسطینیوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے ادویات، خوراک اور امدادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

اسرائیل کی وحشیانہ بمباری،73فلسطینی شہید

مشاہد حسین سید نے کہا کہ تیسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ 2019 میں ترک صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر کے مشترکہ اقدام کو یاد کرتے ہوئے ‘خیالات اور بیانیے کی جنگ’ میں امت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے عالمی میڈیا کے قیام کے فیصلے کو عملی جامہ پہنایا جائے،غزہ کی موجودہ صورت حال میں مغربی میڈیا کا تعصب اور جانبداری کھل کر سامنے آگئی۔

انہوں نے کہا کہ مسلم برادری میں سے جید صحافی، دانشور، ماہرین تعلیم اور تھنک ٹینکس ‘خیالات کی جنگ’ میں سچائی اور حقائق پر مبنی بیانیہ تیار کرنے اور اسے موثر انداز سے پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، اس طرح کا مسلم گلوبل میڈیا مسلم دنیا کی عوامی امنگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین، کشمیر، اسلامو فوبیا اور روہنگیا پر رائے عامہ ہموار اور مغربی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کی دوڑ سے باہر ہونا عمران خان کی ساکھ کے …

Comments are closed.