کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں منشیات سے جڑے نیٹ ورک کے خلاف تفتیش میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) نے دو ڈرگ ڈیلرز کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار ملزمان کی شناخت فرحان اور مغنی کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ایس ایس پی ایس آئی یو محمد شعیب کے مطابق، ملزم ارمغان کی تفتیش کے دوران ساحر حسن کا نام سامنے آیا، جس سے مزید پوچھ گچھ پر مغنی اور فرحان کی شناخت ہوئی۔ انکشاف ہوا کہ یہ ملزمان لاہور سے منشیات لا کر کراچی میں سپلائی کرتے تھے اور ڈانس پارٹیوں سمیت ڈیفنس کے مختلف گھروں میں منشیات فراہم کرتے تھے۔ایس ایس پی محمد شعیب نے بتایا کہ ملزمان کے قبضے سے 80 گرام کوکین برآمد کی گئی ہے۔ دورانِ تفتیش مزید ناموں کا بھی انکشاف ہوا ہے، جن کے خلاف مزید کارروائی جاری ہے۔ کچھ منشیات سپلائی کرنے والوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے گئے ہیں۔ کوریئر کمپنیوں سے بھی تفصیلات طلب کی جا رہی ہیں اور بینک اکاؤنٹس کے ذریعے ہونے والی ٹرانزیکشنز کی بھی چھان بین ہو رہی ہے۔ مزید برآں، ایک مینیجر مکرم کو شاملِ تفتیش کرلیا گیا ہے۔
ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم ساحر حسن کے والد، معروف اداکار ساجد حسن، کو بیٹے کی سرگرمیوں کا علم تھا، تاہم ان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
دوسری جانب، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار آرائیں نے ڈی آئی جی سی آئی اے، ایس ایس پی، اور تفتیشی افسر کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں ملزم ارمغان کے والد اور مقتول مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تفتیش میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ خط میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ملزم اور اس کے ساتھی دہشت گردی یا دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر کی رپورٹ کے مطابق، مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی کے بعد حاصل کیے گئے نمونوں میں کسی نشہ آور یا زہریلی چیز کے شواہد نہیں ملے۔ رپورٹ میں مقتول کے جسم کے مختلف حصوں سے لیے گئے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، جس پر پرنسپل انویسٹی گیٹر، معاون تفتیش کار، اور ٹیکنیکل مینیجر کے دستخط موجود ہیں۔تفتیشی حکام اس کیس کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ حقائق منظرِ عام پر آ سکیں۔