طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں، جہاں جمعے کے روز ان کی بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کا ایک نمایاں پہلو یہ رہا کہ دونوں ممالک کے پرچم پس منظر میں آویزاں نہیں کیے گئے۔

سفارتی روایت کے مطابق وزرائے خارجہ کی ملاقاتوں کے دوران دونوں ممالک کے پرچم عموماً پس منظر میں رکھے جاتے ہیں، جو ریاستی تعلقات کی علامت سمجھے جاتے ہیں، تاہم چونکہ بھارت نے طالبان حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا، اس لیے یہ معاملہ سفارتی طور پر نازک صورت اختیار کر گیا۔ الجزیرہ کے مطابق افغانستان کے جھنڈے کو گزشتہ ایک صدی میں 18 مرتبہ تبدیل کیا جا چکا ہے، جبکہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سفید پرچم کو قومی پرچم کے طور پر اپنایا گیا، جس پر کلمہ طیبہ درج ہے۔ اسی پرچم کے خلاف جلال آباد سمیت کئی شہروں میں احتجاج بھی ہو چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق طالبان کا سفید پرچم بھارت کے لیے حساس علامت سمجھا جاتا ہے، لہٰذا ملاقات کے دوران اسے رسمی حیثیت نہیں دی گئی۔ نئی دہلی نے اس معاملے میں غیر جانب دارانہ رویہ اپناتے ہوئے سفارتی آداب کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، تاکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا تاثر پیدا نہ ہو۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس محتاط رویے کے باوجود بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ دورہ بھارت و افغانستان کے تاریخی تعلقات کو آگے بڑھانے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔

وزیرِاعلیٰ کا انتخاب،خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس پیر کو طلب

پاکستان کی افغان وزیرِ خارجہ کے بھارت میں بیانات پر سخت مذمت

پاک افغان فورسز میں جھڑپیں، دو افغان پوسٹیں تباہ ،پانچ اہلکار ہلاک

Shares: