جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے
وہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو

6 دسمبر 1929ء اردو کے معروف نقاد، محقق اور مترجم مظفر علی سید کی تاریخ پیدائش ہے۔

مظفر علی سید امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تصانیف میں تنقید کی آزادی اور تراجم میں فکشن، فن اور فلسفہ اور پاک فضائیہ کی تاریخ کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کئے۔

مظفر علی سید نے 28 جنوری 2000ء کو لاہور میں وفات پائی۔وہ لاہور میں کیولری گرائونڈ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

غزل
۔۔۔۔۔
بہت نحیف ہے طرز فغاں بدل ڈالو
نظام دہر کو نغمہ گراں بدل ڈالو

دل گرفتہ تنوع ہے زندگی کا اصول
مکاں کا ذکر تو کیا لا مکاں بدل ڈالو

نہ کوئی چیز دوامی نہ کوئی شے محفوظ
یقیں سنبھال کے رکھو گماں بدل ڈالو

نیا بنایا ہے دستور عاشقی ہم نے
جو تم بھی قاعدۂ دلبراں بدل ڈالو

اگر یہ تختۂ گل زہر ہے نظر کے لیے
تو پھر ملازمت گلستاں بدل ڈالو

جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے
یہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو

تمہارا کیا ہے مصیبت ہے لکھنے والوں کی
جو دے چکے ہو وہ سارے بیاں بدل ڈالو

مجھے بتایا ہے سیدؔ نے نسخۂ آساں
جو تنگ ہو تو زمیں آسماں بدل ڈالو

غزل
۔۔۔۔۔
جوانی مگر اس قدر مستیاں
شب و روز شام و سحر مستیاں
نہ دل میں ذرا بھی ندامت ہوئی
مچاتے رہے رات بھر مستیاں
ہواؤں میں لو تھرتھراتی رہی
ادھر تھی حیا اور ادھر مستیاں
ہوس کاریوں کو مسرت نہ کہہ
محبت میں اتنی نہ کر مستیاں
جوانی گنواتے ہیں جو زہد میں
بڑھاپے میں کرتے ہیں خر مستیاں
کبھی خلوتوں میں تکلف بہم
کبھی ہیں سر رہ گزر مستیاں
بڑی مشکلوں سے شب احتیاط
جو گزری تو پچھلے پہر مستیاں
وہیں دوستی ہے جہاں عشق ہے
جدھر خواریاں ہیں ادھر مستیاں
اداؤں کو الفت سمجھتا ہے تو
نہیں اے مرے بے خبر مستیاں
ثوابوں سے ان کا سہی فاصلہ
گناہوں سے ہیں دور تر مستیاں
یہاں حکمتیں بھی اترتی رہیں
اچھلتی رہی ہیں اگر مستیاں
پیاپے ترے نام پر گردشیں
دما دم ترے نام پر مستیاں
کوئی کام سیدؔ نے چھوڑا نہیں
کمالات سیر و سفر مستیاں

غزل
۔۔۔۔۔
سنیے پیام شمس و قمر رقص کیجیے
اس دائرے میں شام و سحر رقص کیجیے
پاکیزگی فضا کی ترنم نسیم کا
کیا چاندنی ہے پچھلے پہر رقص کیجیے
تالی بجا رہے ہیں شگوفے نئے نئے
آواز دے رہے ہیں شجر رقص کیجیے
کیا چھپ چھپا کے چھت کے تلے ناچ میں مزا
عریاں نکل کے در سے بدر رقص کیجیے
جی چاہتا ہے آج فرشتوں سے بھی کہوں
پرواز کیا ہے کھینچ کے پر رقص کیجیے
فرصت نہیں فقیہ کو زر کی تلاش سے
مطلق نہ کیجے خوف و خطر رقص کیجیے
گر اضطرار قابل تعزیر ہے تو ہو
ہے اپنے بس میں خیر نہ شر رقص کیجیے
دوزخ جلا کے درد کا اور آگہی کی آگ
دونوں کے درمیان اتر رقص کیجیے
تنہائیوں کے گیت نہ سب کو سنائیے
پاؤں ملا کے جوڑ کے سر رقص کیجیے
مت پوچھیے کہ پیار کا انجام کیا ہوا
پیارا چلا گیا ہے کدھر رقص کیجیے
مانند قیس ریت نہ صحرا کی چھانیے
کس کو ملی ہے کس کی خبر رقص کیجیے
کیجے طواف کوچۂ جاناں کو تیز تر
مضمر ہے اس میں سیر و سفر رقص کیجیے
سیدؔ قرار کو تو پڑی ہے تمام عمر
اک اور بھی غزل ہے اگر رقص کیجیے

Shares: