ایران نے اسرائیلی حملے رکنے تک مذاکرات کا امکان مسترد کردیا کہا کہ ،اسرائیلی حملے رکنے تک کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع اور ایک دوسرے پر حملوں کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے، تاہم صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

دونوں ممالک کی جانب سے حملے جاری ہیں، جن کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان دونوں طرف ہو رہا ہے، لیکن سوشل میڈیا اور دنیا بھر کی توجہ اس وقت اسرائیل کی صورتحال پر مرکوز ہے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے غزہ پر حملے کرتا رہا ہے، جب کہ یہ پہلا موقع ہے کہ خود اسرائیل کو خوف اور عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی متعدد فوٹیجز گردش کر رہی ہیں، جن میں اسرائیلی شہریوں کو زیرِ زمین بنکرز میں پناہ لیتے اور ایرانی میزائلوں سے خوفزدہ دکھایا گیا ہے،تاہم ایران نے اسرائیلی حملے رکنے تک مذاکرات کا امکان مسترد کردیا –

وزیرخارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ موجودہ حالات میں کسی سے بھی خصوصاً امریکا سے اس معاملے پر مذاکرات کے خواہاں نہیں ہیں،اسرائیلی حملے رکنے تک کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے۔

ایرانی سرکاری میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کے خلاف اسرائیلی جرائم میں شراکت دار ہے، موجودہ حالات میں، اور جب تک صیہونی حکومت کے حملے جاری ہیں ہم کسی سے خصوصاً امریکا سے اس معاملے پر مذاکرات کے خواہاں نہیں ہیں، ہم نے ان پر واضح کردیا ہے کہ جب تک جارحیت اور حملے جاری رہیں گے، بات چیت یا سفارتکاری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت حالتِ دفاع میں ہیں، یہ دفاع نہ رکے گا اور نہ روکا جا سکتا ہے، ایران کبھی بھی سویلین علاقوں کو نشانہ نہیں بناتا جوکہ اسرائیلی کارروائیوں کے برعکس ہے جن میں دانستہ طور پر غزہ میں اسپتالوں پر حملہ کیا گیا۔

عراقچی سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا پہنچ چکے ہیں، جہاں ان کی ملاقات فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ سے ہونی ہے۔ اس اجلاس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے سفارتی حل تلاش کرنا ہے یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب اسرائیل نے پچھلے ہفتے ایران پر شدید حملے شروع کیے، اور یہ یورپی ممالک کی پہلی بڑی سفارتی کوشش ہے کہ صورتحال کو پرامن انداز میں کنٹرول کیا جائے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی، جو اس مذاکراتی عمل کا حصہ ہوں گے، انہوں نے کہا کہ "آنے والے دو ہفتوں میں ایک سفارتی حل کا موقع موجود ہے”، یہ بات انہوں نے واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقات کے بعد کہی۔

Shares: