کراچی :کل اتوارکو کراچی کے حلقے NA245 میں ضمنی الیکشن کا معرکہ سجنا ہے۔ پہلے سے ہرکوئی اپنی مرضی کی پیشن گوئی کررہا ہے ، مگرجیتے گا کون اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ، اس حلقے کے نتائج کئی حوالوں سے ملک کی 2 سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کا تعین کریں گے۔

 

 

کراچی کے یہ  حلقہ این اے 245 ضمنی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے، قومی اسمبلی کے حلقے میں سخت مقابلے کی توقع ہے کراچی میں موسلا دھار بارش،سیلابی صورتحال اوراس سے پہلے عیدالاضحیٰ اور دیگر عام تعطیلات کے باعث انتخابی مہم شدید متاثرہوئی ہے، بارش آج بھی ہورہی ہے مگرکل اگرموسم خراب رہا تو جواپنے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن پر لانے میں کامیاب رہا وہ الگے مرحلے میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے

 

 

ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار کو مرکز میں مخلوط حکومت میں اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ نشست ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کو 56 ہزار 673 ووٹ لے کر شکست دی تھی جبکہ ستار کے 35 ہزار 429 ووٹ تھے۔

ان انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے محمد احمد رضا نے 20 ہزار 737 ووٹ، ایم ایم اے کے سیف الدین نے 20 ہزار 143 ووٹ، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ طارق نذیر نے 9 ہزار 682 ووٹ، پی ایس پی کے ڈاکٹر صغیر احمد نے 6 ہزار 222 ووٹ حاصل کیے۔ احمد نے 890 ووٹ، اے این پی کی ثمینہ ہما میر نے 606 ووٹ، آزاد امیدوار سلیم سچوانی نے 996 ووٹ، ارشد علی نے 569 ووٹ، محمد جمیل نے 524 ووٹ، عبدالخورشید خان نے 183 ووٹ اور عبدالانیس خان نے 80 ووٹ حاصل کیے۔

اس حلقے میں 166,869 ووٹ ڈالے گئے۔ جن میں سے 2,866 کو باطل اور 164,003 کو درست قرار دیا گیا۔ انفرادی اعداد و شمار کے مطابق مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو 21 ہزار 244 ووٹوں سے، ٹی ایل پی کے امیدوار کو 35 ہزار 936 اور ایم ایم اے کے امیدوار کو 36 ہزار 530 ووٹوں سے شکست دی تھی۔

21 اگست کو ہونے والے اس ضمنی انتخاب میں این اے 245 کی نشست کے لیے سترہ امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں پی ٹی آئی کے محمود باقی مولوی، ایم کیو ایم کے معید انور، ٹی ایل پی کے محمد احمد رضا اور پی ایس پی کے سید حفیظ الدین نمایاں ہیں۔

پی پی پی کے محمد دانش خان اور جے یو آئی کے امین اللہ نے اپنے امیدواروں کو واپس لے لیا اور پی ڈی ایم اتحاد کے فیصلے کے مطابق ایم کیو ایم کے امیدوار کی حمایت کررہے ہیں‌

اس سے پہلے ایم کیوایم یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ اس سے یہ حلقہ چھینا گیا ، 2018 کے انتخابات میں کراچی میں اس کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا، لیکن اب ایم کیو ایم کو اپنے دعوے کی حقیقت کا علم ہوجائے گا کہ کیا واقعی یہ حلقہ چھینا گیا تھا یا لوگوں نے پی ٹی آئی کو وو ٹ دیا جس طرح اس الیکشن میں بھی یہی خیال کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی یہ سیٹ جیت سکتی ہے

ایم کیوایم اب مکمل طور پر تقسیم ہوچکی ہے اور اس حلقے میں ایم کیو ایم کے چار دھڑوں کے اپنے اپنے امیدوار ہیں‌،لائنز ایریا جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت رہتی ہے وہاں اس بار آفاق احمد نے اپنا مضبوط امیدوار کھڑا کیا ہے جبکہ مصطفی کمال بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

محمود مولوی علی زیدی کے قریبی دوست ہیں ۔ پیسہ اچھا خاصا خرچ کیا جارہا ہے ۔امید کی جارہی ہے کہ محمود مولوی اس وقت ایم کیوایم کی تقسیم کی وجہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اورپی ڈی ایم کی حمایت بھی شاید ایم کیوایم پاکستان کو یہ سیٹ نہ جتوا سکے

 

جہاں تک تعلق ہے ٹی ایل پی کا تو 2018 میں تحریک لبیک 22 ہزار ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔مگراس وقت یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اصل مقابلہ ٹی ایل پی اور پی ٹی آئی میں ہو ،مقامی حالات کا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حلقے میں تین جماعتوں میں کانٹے کا مقابلہ ہو

 

 

این اے 245 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 15 ہزار ہے ، جن کے لئے 263 پولنگ اسٹیشن اور 1052 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔

263 میں 203 پولنگ اسٹیشز کو انتہائی حساس اور باقی کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

ضمنی انتخاب کو ہر صورت غیر جانبدار، شفاف اور پُر امن بنانے کے لیے پولیس اور رینجرز کے علاوہ فوج کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ فوج اور رینجرز کو انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز کے باہر تعینات کیا جائے گا۔

Shares: